اسد حکومت ختم ہو جائے گی، باراک اوباما
7 مارچ 2012منگل کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے شام میں تشدد کو ’دل کو توڑ دینے والا‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن حکومت شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کو ’اکیلا‘ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے گی۔ اوباما نے کہا کہ ان پر تنقید کرنے والوں کو یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ جنگ کی کیا قیمت چکانا پڑتی ہے۔
امریکی صدر نے شام کی صورتحال کو لیبیا سے مختلف بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب امریکی فضائیہ نے لیبیا میں معمر القذافی کے حامیوں کو ظلم و ستم سے روکنے کے لیے کارروائی شروع کی تھی تو اس وقت عالمی اور علاقائی برادری اس کے ساتھ تھی۔ انہوں نے کہا کہ شام کی صورتحال کافی زیادہ پیچیدہ ہے، اس لیے وہاں عسکری کارروائی مناسب فیصلہ نہیں ہوگا۔ پیر کو ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جان مک کین نے شام میں عوام پر تشدد روکنے کے لیے امریکی فضائی حملے کا مطالبہ کیا تھا۔
دریں اثناء شام میں صد بشار الاسد کی حامی فورسز باغیوں کے خلاف پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئی ہیں۔ خبر رساں اداروں نے انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان کے حوالے سے بتایا ہے کہ منگل کے دن بھی اس تشدد کی وجہ سے متعدد افراد مارے گئے۔ تاہم ان طلاعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ اقوام متحدہ کی اعلیٰ اہلکار Valerie Amos اور یو این کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان رواں ہفتے کے دوران شام کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے تاکہ وہاں کی حقیقی صورتحال کو صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔
اس صورتحال میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے شام میں جاری تشدد کو رکوانے کے لیے ایک ملاقات بھی کی۔ بند کمرے میں ہونے والی اس ملاقات میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک نے امریکا کی طرف سے تجویز کیے گئے اس مسودے پر بحث کی ، جس میں شام میں تشدد رکوانے کے لیے صدر اسد پر زور دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق متعدد یورپی سفارتکاروں نے شام میں براہ راست عسکری مداخلت کی تجاویز کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں اس صورت میں مشرق وسطیٰ میں امن کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
شام میں گزشتہ ایک برس سے جاری اس تنازعہ کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق ساڑھے سات ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ شامی صدر کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں دہشت گرد عناصر کے خلاف نبرد آزما ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شامل شمس