امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ مشرقی غوطہ میں شہریوں کے خلاف مبینہ کیمیائی حملے کی شامی صدر بشار الاسد کو ’بھاری قیمت‘ چکانا ہو گی۔ تاہم ماسکو نے کہا ہے کہ دمشق حکومت نے مشرقی غوطہ میں کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کیے ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار آٹھ اپریل کے دن ایک بیان میں خبردار کیا کہ مشرقی غوطہ میں شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی شامی صدر بشار الاسد کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ ٹرمپ نے بہت سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ایران اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھی ’جانور اسد‘ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں ٹرمپ نے لکھا کہ ’بے حس کیمیائی حملے کے نتیجے میں خواتین اور بچے بھی مارے گئے ہیں‘۔
مشرقی غوطہ میں مزید تیس روز تک فائربندی کے مطالبے کی تجویز
01:58
تاہم اے ایف پی نے روسی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی حکومت نے مشرقی غوطہ کے شہر دوما میں کوئی کیمیائی حملہ نہیں کیا۔ شام میں ثالثی کی کوششوں کے لیے نامزد کردہ خصوصی روسی مندوب میجر جنرل یوری یوٹشینکو نے کہا، ’’ہم ان خبروں کی سخت الفاظ میں تردید کرتے ہیں۔‘‘
ہفتے کے دن دوما میں ہوئے ایک حملے کے نتیجے میں کم ازکم چالیس شہریوں کے ہلاک ہونے کی خبر ہے جبکہ دس افراد کو سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں کہ دوما میں اس کارروائی کے لیے زہریلی سارین گیس استعمال کی گئی۔ اس کارروائی کے لیے شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔
اس تازہ پیشرفت پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ہیدر ناؤورٹ نے کہا، ’’ اگر ان خبروں کی تصدیق ہو جاتی ہے تو عالمی برادری کو فوری طور پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے کی ضرروت ہو گی۔‘‘ انہوں نے اس مبینہ کیمیائی حملے کو ’ہولناک‘ قرار دیتے ہوئے مزید کہا، ’’اسد حکومت اور اس کے حامیوں کو اس حملے کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا تاکہ مستقبل میں ایسی کوئی کارروائی نہ کی جا سکے۔‘‘
تاہم روسی حکام نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ میجر جنرل یوری یوٹشینکو نے کہا، ’’دوما کے جنگجوؤں سے آزاد کرائے جانے کے بعد ہم فوری طور پر اپنے ماہرین کو وہاں بھیجیں گے اور وہ چھان بین کے بعد واضح کر دیں گے کہ مبینہ کیمیائی حملے کی خبریں من گھڑت ہیں۔‘‘
روسی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی اتوار کے دن جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ کیمیائی حملے کا الزام لگانا ’اشتعال انگیزی‘ ہے۔ اس بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ ان اطلاعات کی بنا پر اگر شامی فورسز کے خلاف کوئی بھی عسکری کارروائی کی گئی، تو اس کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
شامی فورسز نے مقامی ملیشیا گروہوں اور روسی عسکری تعاون سے اٹھارہ فروری کو مشرقی غوطہ کی بازیابی کا آپریشن شروع کیا تھا۔ اب تک اس کارروائی کے نتیجے میں کم ازکم سولہ سو شہری مارے جا چکے ہیں۔ شامی فورسز دمشق کے نواح میں واقع مشرقی غوطہ کے پچانوے فیصد علاقے کا انتظام سنبھال چکی ہیں تاہم باغی ابھی تک مشرقی غوطہ کے سب سے بڑے شہر دوما کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔