اسرائيل کا بائيکاٹ بھی اب ’سامیت مخالف‘ ہو گا: پومپیو
19 نومبر 2020
امريکی وزير خارجہ نے مقبوضہ فلسطينی علاقوں کے اپنے متنازعہ دورے کے موقع پر کہا ہے کہ اسرائيل کے بائيکاٹ سے متعلق تحريک اب ’سامیت مخالف‘ مانی جائے گی اور اس کا حصہ بننے والوں کے ساتھ تمام تر تعاون ختم کر ديا جائے گا۔
اشتہار
فلسطينيوں کے ساتھ سلوک کی مخالفت کے ليے اسرائيل اور اس کی اشياء کے بائيکاٹ سے متعلق تحريک (BDS) اب ساميت دشمنی کے زمرے ميں آئے گی۔ اس بارے ميں اعلان امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو نے جمعرات کو يروشلم ميں کيا۔ انہوں نے کہا، ''اب ہم عالمی سطح پر جاری اس اسرائيل مخالف تحريک کو ساميت دشمنی مانيں گے۔‘‘ پومپيو کے بقول اس فيصلے کی روشنی ميں فوری طور پر ايسے اداروں کی شناخت کی جائے گی، جو اس تحريک کا حصہ ہيں اور ان کی حمايت و تعاون ختم کر ديا جائے گا۔ امريکی وزير خارجہ نے کہا کہ تمام ملکوں کو اسرائيل اور اس کی اشياء کے بائيکاٹ سے متعلق تحريک (BDS) کو ايک سرطان سمجھنا چاہيے۔
تحريک در اصل ہے کيا؟
بی ڈی ايس موومنٹ کے منتظمين کا دعوی ہے کہ يہ فلسطينيوں کے ساتھ اسرائيل کے سلوک اور متنازعہ پاليسيوں کی مخالفت کا ايک امن پسندانہ راستہ ہے۔ يہ تحريک کچھ حد تک کامياب رہی ہے مگر اس کا اسرائيلی اقتصاديات پر کوئی خاص اثر نہيں پڑا۔ دوسری جانب اسرائيلی حکام اس تحريک کو اپنے وجود پر حملہ تصور کرتے ہيں اور تحريک کے جلسے جلوسوں ميں کہے گئے متنازعہ جملوں کو ساميت دشمنی کی مثالوں کے طور پر پيش کرتے ہيں۔
اعلیٰ امريکی اہلکار مقبوضہ علاقوں کے پہلا دورے پر
امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو آج مقبوضہ گولان کی پہاڑيوں کا دورہ کر رہے ہيں۔ يہ سن 1967 ميں اس شامی علاقے پر اسرائیلی قبضے کے بعد کسی اعلیٰ سطحی امريکی اہلکار کا پہلا دورہ ہے۔ پومپيو نے اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو کے ہمراہ ايک پريس کانفرنس ميں جمعرات کے اس دورے کی تصديق کی ہے۔ اس پريس کانفرنس ميں نيتن ياہو نے کہا کہ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظاميہ ميں اسرائيل و امريکا کے باہمی تعلقات کافی بہتر ہوئے۔ انہوں نے امريکی سفارت خانے کی يروشلم منتقلی پر بھی شکريہ ادا کيا۔
بين الاقوامی برادری مقبوضہ فلسطينی علاقوں ميں يہودی آبادکاری کو بين الاقوامی قوانين کے خلاف قرار ديتی ہے اور امريکا بھی ايک عرصے تک ايسا ہی کرتا آيا ہے۔ تاہم ٹرمپ کے دور اقتدار ميں يہ پاليسی تبديل ہو گئی اور پومپيو کا گولان کی پہاڑيوں کا دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ واشنگٹن انتظاميہ اب اس علاقے کو باقاعدہ طور پر اسرئيل کا حصہ تسليم کر چکی ہے۔
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
غزہ پٹی ميں دو نوجوان لڑکياں ’انسٹاگرام‘ کی مدد سے دنيا کو اپنے علاقے کا ايک ايسا رخ دکھانے کی کوششوں ميں ہيں، جو اس علاقے کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثرات کے بالکل مختلف ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔