اسرائیلی جاسوسی سافٹ ویئر، غلط استعمال پر بند کرنے کی دھمکی
9 فروری 2020
ایک اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنی پر الزام ہے کہ اس نے جاسوسی کے لیے بنائے گئے اپنے سافٹ ویئر کے غلط استعمال پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ تاہم اس کمپنی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ماضی میں ایسے صارفین کو ’شٹ ڈاؤن‘ کرتی رہی ہے۔
اشتہار
اسرائیل حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر میں سائبر سکیورٹی ٹیکنالوجی کی ایجاد میں سرفہرست رہا ہے۔ اسرائیلی ٹیکنالوجی اور اسٹارٹ اپ کمپنیوں کی جدید ترین ایجادات اور اس صنعت کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ ان میں اسرائیلی خفیہ اداروں کے سابق اہلکار بھی بھرتی کیے جاتے ہیں۔
ایسی ہی ایک مشہور لیکن بدنام زمانہ اسرائیلی کمپنی کا نام این ایس او ہے۔ اس کمپنی کے اعلیٰ اہلکار اسرائیل کے ایلیٹ سگنل انٹیلی جنس یونٹ 8200 میں کام کر چکے ہیں۔ بدنام زمانہ پیگاسس اسپائی ویئر بھی اسی کمپنی کی ایجاد ہے۔
انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے لیے سرگرم عالمی تنظیمیں این ایس او پر الزام عائد کرتی ہیں کہ یہ اسرائیلی کمپنی اپنے جاسوس سافٹ ویئر کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کرتی۔
اسرائیلی اسپائی ویئر اور سعودی عرب
سعودی عرب بھی مبینہ طور پر اسرائیلی سافٹ ویئر استعمال کر رہا ہے۔ اس کا تازہ ترین انکشاف تب ہوا جب سعودی اہلکاروں نے ایمازون کے سربراہ جیف بیزوس کا موبائل فون ہیک کرنے کی کوشش کی تھی۔ این ایس او کا دعویٰ ہے کہ اس واقعے میں اسرائیلی سافٹ ویئر استعمال نہیں کیا گیا تھا۔
تاہم اس کے علاوہ بھی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد امریکا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک میں مقیم ان کے قریبی دوستوں کی جاسوسی کے لیے یہی سافٹ ویئر استعمال کیا گیا تھا۔
'سافٹ ویئر صرف سکیورٹی مقاصد کے لیے ہے‘
این ایس او گروپ کے مطابق ان کے تیار کردہ اسپائی ویئرز کے لائسنس صرف سنجیدہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔ کمپنی کے مطابق اس نے اسپائی ویئر کا غلط استعمال روکنے کے لیے کئی اقدامات کر رکھے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے این ایس او کے ایک ترجمان نے کہا، ''ہمارے صارفین معاہدے کے تحت پابند ہیں کہ وہ این ایس او گروپ کے مطالبے پر تحقیقات میں تعاون کریں گے اور غلط استعمال کی تصدیق ہونے کی صورت میں ہم ان کا سسٹم شٹ ڈاؤن کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور ماضی میں ہم نے ایسا کیا بھی ہے۔‘‘
گروپ کے مطابق وہ اقوام متحدہ کے کاروبار اور انسانی حقوق سے متعلق رہنما اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سافٹ ویئر فروخت کرتے ہیں۔ تاہم کمپنی نے یہ بھی کہا کہ غلط استعمال روکنے کے لیے مزید اقدامات کے باوجود ایسے عمل کی ذمہ داری صارف پر عائد ہوتی ہے۔
'تبدیلی کے اثرات دکھائی نہیں دے رہے‘
این ایس اے کے دعووں کے باوجود انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے اسپائی ویئر کا غلط استعمال روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے عملی اثرات دکھائی نہیں دیتے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ٹیکنالوجی سے متعلق شعبے کی ڈپٹی پروگرام ڈائریکٹر ڈانا اینگلٹن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی کی جانب سے انسانی حقوق کی اہمیت کے بارے میں بیانات دینے اور اس پر عمل کرنے میں بہت فرق ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''اب تک کمپنی کی انسانی حقوق کے بارے میں (نئی) پالیسی کے کمپنی کے طرز عمل پر اثرات مرتب ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔‘‘
اسرائیل میں بھی اس کمپنی کے خلاف تیس افراد نے ایک مقدمہ دائر کر رکھا ہے جس میں کمپنی کے سافٹ ویئر کا برآمدی لائسنس منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ یہ لائسنس اسرائیلی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے۔
واٹس ایپ بھی متاثرین میں شامل
این ایس او کے تیار کردہ سافٹ ویئر کے غلط استعمال کی ایک مثال گزشتہ برس بھی سامنے آئی تھی۔ واٹس ایپ کی ایک خامی کو استعمال میں لاتے ہوئے اسرائیلی سافٹ ویئر صرف ایک واٹس ایپ مس کال کے ذریعے صارف کے فون پر انسٹال ہو جاتا تھا۔
واٹس ایپ کی مالک کمپنی فیس بُک نے بھی گزشتہ برس اکتوبر میں این ایس او کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی کمپی نے دنیا کے بیس ممالک میں 1400 سے زیادہ صارفین کے فون ہیک کرنے میں غیر ملکی حکومتوں کی مدد کی تھی۔
لوئیز سانڈرز فور - ش ح / ا ا
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔