اسرائیلی اماراتی معاہدہ: ٹرمپ کے لیے نوبل امن انعام کی سفارش
9 ستمبر 2020
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین دوطرفہ تعلقات کے قیام کے تاریخی معاہدے کی خاطر امریکی ثالثی کوششوں کے باعث صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام اگلے برس کے نوبل امن انعام کے لیے تجویز کر دیا گیا ہے۔
اشتہار
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر کا 2021ء کے نوبل امن انعام کے لیے نام ناروے کی پارلیمان کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک رکن نے تجویز کیا ہے۔
کرسٹیان ٹیبرِنگ جیڈے نامی اس سیاستدان نے بدھ نو ستمبر کے روز فیس بک پر لکھا کہ صدر ٹرمپ نے اسرائیل اور خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کے مابین معمول کے سفارتی اور تجارتی تعلقات کے قیام کے لیے جو ثالثی کوششیں کیں، وہ غیر معمولی نتائج کی وجہ بنیں۔
کرسٹیان ٹیبرِنگ جیڈے کے مطابق، ''یہ اسرائیلی اماراتی معاہدہ اتنا اہم ہے کہ یہ اسرائیل اور کئی دیگر عرب ریاستوں کے مابین دیرپا امن کے قیام کی ابتدا ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
ناروے کے اس دائیں بازو کے سیاستدان کا تعلق عوامیت پسند پروگریس پارٹی سے ہے۔ انہوں نے اپنی فیس بک پوسٹ میں یہ امید بھی ظاہر کی کہ ناروے کی پانچ رکنی نوبل کمیٹی ان کی طرف سے صدر ٹرمپ کے نامزدگی پر دلجمعی سے غور کرے گی۔
ٹیبرِنگ جیڈے کے مطابق، ''مجھے امید ہے کہ ناروے کی نوبل کمیٹی اس بات پر غیر جانبداری سے غور کرے گی کہ امریکی صدر ٹرمپ نے بین الاقوامی سطح پر کتنا بڑا کام کیا ہے۔ میں یہ امید بھی کرتا ہوں کہ یہ کمیٹی صدر ٹرمپ کے خلاف پائے جانے والے وسیع تر تعصب میں ہی کہیں پھنسی نہیں رہے گی۔‘‘ انہوں نے کہا، ''اس کمیٹی کو دیکھنا چاہیے کہ ٹرمپ کی وجہ سے دنیا کے کتنے زیادہ علاقوں میں امن قائم ہو گیا ہے۔‘‘
ناروے کے اس پاپولسٹ سیاستدان نے 2019ء میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا نام نوبل امن انعام کے لیے تجویز کیا تھا۔ تب انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ صدر ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کم جونگ ان کی 2018ء میں سنگاپور میں ہونے والی سربراہی ملاقات عالمی سیاست کا اتنا بڑا واقعہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام دیا جانا چاہیے تھا۔
اس سال تین سو سے زائد امیدوار
ناروے کی نوبل امن کمیٹی سال رواں کے لیے اس انعام کی حقدار شخصیت یا شخصیات کے ناموں کا اعلان نو اکتوبر کو کرے گی۔ اس سال اس اعزاز کے لیے تین سو سے زائد شخصیات کے نام تجویز کیے گئے ہیں۔
اس نارویجین پاپولسٹ سیاسی لیڈر نے ڈونلڈ ٹرمپ کا نام اگلے سال کے نوبل امن انعام کے لیے تجویز کیا ہے۔
م م / ع ا (ڈی پی اے)
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔