اسرائیلی میں آج منگل کے روز منعقدہ عام انتخابات میں چالیس سے زائد جماعتیں میدان میں ہیں۔ 120 رکنی پارلیمان میں کم ازکم 61 نشستوں کی حامل جماعت یا اتحاد آئندہ حکومت سازی کر پائے گا۔
اشتہار
اسرائیلی انتخابات میں دائیں بازوں کا اتحاد، سینٹرسٹ، الٹرا آرتھوڈاکس جماعتیں، عرب جماعتیں اور دیگر تحریکیں شرکت کر رہی ہیں۔ تاہم کنیسٹ کہلانے والی اسرائیلی پارلیمان تک رسائی کے لیے مجموعی ووٹوں کا کم از کم تین اعشاریہ دو پانچ فیصد ووٹ لینا ضروری ہے۔
اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے، جہاں حکومت سازی کے لیے ایک سو بیس رکنی پارلیمان میں 61 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم آج تک اسرائیل میں کبھی کوئی جماعت 61 سے زائد نشستیں حاصل نہیں کر پائی، اس لیے وہاں عموماﹰ حکومت مختلف جماعتوں کے اتحاد سے بنتی ہے۔
عوامی جائزوں کے مطابق وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی لیکوڈ اور سینٹرسٹ جماعت بلو اینڈ وائٹ پارٹی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ دونوں جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ پارلیمان میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئیں اور پھر چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اتحادی حکومت قائم کر لیں۔
اسرائیل میں سن 1977 سے لیکوڈ پارٹی ایک مضبوط سیاسی قوت رہی ہے اور چند مواقع کے علاوہ حکومت اسی جماعت کے ہاتھ میں رہی ہے۔ گزشتہ قریب ایک دہائی سے اس جماعت کی طاقت کی ایک وجہ نیتن یاہو کی شخصیت بھی ہے۔
نیتن یاہو اسرائیلی آبادکاروں کے حق میں رہے ہیں جب کہ ان کی جانب سے قوم پرستوں اور الٹرا آرتھوڈاکس جماعتوں کی بھی خوش نودی حاصل کی جاتی رہی ہے۔ اسی طرح نیتن یاہو حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ گزشتہ انتخابات میں لیکوڈ پارٹی کو حکومت سازی کے لیے عوامیت پسند مِزراہی جماعت کی حمایت لینا پڑی تھی۔
اسرائیلی اٹارنی جنرل کی جانب سے نیتن یاہو کے خلاف سنجیدہ نوعیت کی بدعنوانی کے تین الزامات کے باوجود عوامی جائزے نیتن یاہو کو ایک مقبول لیڈر بتا رہے ہیں۔ اگر نیتن یاہو یہ انتخابات جیتنے اور حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ اسرائیلی تاریخ میں طویل ترین مدت تک وزیراعظم رہنے والے رہنما بن جائیں گے۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
تاہم ان کے مدمقابل سابق فوجی سربراہ بینی گانٹس ہیں، جنہوں نے رواں برس ہی سیاسی جماعت قائم کی اور چند ہی ہفتوں میں انہوں نے سینٹریسٹ جماعتوں اور سابق ٹی وی میزبان یائر لاپِڈ، جو یش آتد جماعت کے سربراہ بھی ہیں، کو ساتھ ملا کر سیاسی میدان میں خود کو نمایاں کر لیا۔ نیتن یاہو کے خلاف اس اتحاد کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق گانٹس نے نیتن یاہو کے خلاف الزامات کو عمدہ انداز سے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور ان کا انتخابی نعرہ ’شفاف حکومت، اقتصادی اصلاحات اور اسرائیلی ریاستی اداروں کے لیے عزت‘ کا ہے۔