اسرائیلی انٹیلیجنس وزیر کی سعودی ولی عہد کو دورے کی دعوت
شمشیر حیدر AFP
14 دسمبر 2017
اسرائیل کے انٹیلیجنس کے وزیر یسرائیل کاٹز نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو اسرائیل کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ اب تک سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی انٹیلیجنس وزیر کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ اس وزیر نے ایک انٹرویو کے دوران سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اسرائیل کے دورے پر آنے کی دعوت دی تھی۔ حالیہ عرصے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سمیت کئی رہنما پس پردہ عرب ممالک کے ساتھ جاری تعاون اور بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کا اشارہ دے چکے ہیں۔ اس قربت کی ایک اہم وجہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثر و رسوخ کے خاتمے کے لیے اسرائیل اور عرب ممالک کا مشترکہ مفاد ہے۔
اسرائیلی وزیر کے ترجمان آری شالیسر کا کہنا تھا کہ بدھ تیرہ دسمبر کے روز انٹیلیجنس امور کے اسرائیلی وزیر نے ایک سعودی ویب سائٹ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں شہزادہ محمد بن سلمان کو اسرائیل آنے کی دعوت دی۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ اس سعودی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے اس وزیر کے انٹرویو میں شہزادہ محمد بن سلمان کو دعوت دیے جانے والا حصہ شامل نہیں کیا گیا تھا۔
ٹرمپ کے اعلان کے خلاف مسلم اکثریتی ممالک میں مظاہرے
00:44
اس حوالے سے شالیسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ یسرائیل کاٹز نے اس انٹرویو کے دوران ’سعودی فرمانروا سے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو کو دورہ ریاض کی باقاعدہ دعوت دیں اور شہزادہ محمد بن سلمان سے کہا کہ وہ اسرائیل کے دورے پر آئیں۔
آری شالیسر کا، جو انٹیلیجنس امور کے وزیر کے ترجمان ہونے کے علاوہ خود ملکی وزیر برائے ٹرانسپورٹ بھی ہیں، یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد کو دورہ اسرائیل کی دعوت دینا اسرائیل کی سہ جہتی پالیسی کا حصہ ہے، جس کے مطابق سکیورٹی اور اقتصادی تعاون کے ذریعے خطے میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ اہم اسرائیلی وزیر یسرائیل کاٹز نے سعودی عرب کو ’عرب دنیا کا رہنما‘ بھی قرار دیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بھی بارہا اور فخر کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل اور ’اعتدال پسند عرب ممالک‘ کے مابین تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ نیتن یاہو نے اگرچہ کسی ملک کا نام نہیں لیا لیکن قیاس یہی کیا جاتا ہے کہ اعتدال پسند عرب ممالک سے ان کی مراد سعودی عرب اور خلیجی عرب ریاستیں ہیں۔
گزشتہ ماہ اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف نے بھی اسی عرب ویب سائٹ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کا ملک ’مشرق وسطیٰ پر قبضے‘ کے ایرانی منصوبے سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کی جانب سے تاہم عوامی سطح پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا اس طرح اعتراف نہیں کیا گیا۔ صرف دو عرب ممالک، مصر اور اردن نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔
بدھ تیرہ دسمبر کو دیے گئے اس انٹرویو میں اسرائیلی وزیر نے لبنان اور وہاں سرگرم شیعہ گروپ حزب اللہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے ہمسایہ ملک لبنان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف جنگ کی شروعات کی تو ’اب کی بار پورا لبنان اسرائیل کا ہدف ہو گا‘۔ سن 2006 میں لبنان کے خلاف جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اس دوران جو کچھ ہوا، وہ اب پکنک جیسا دکھائی دے گا، میں کہہ رہا ہوں کہ لبنان واپس پتھر کے زمانے میں چلا جائے گا۔‘‘
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔