ایک یونانی فٹ بال کلب کی ٹیم میں پہلی مرتبہ پیشہ ور اسرائیلی اور ایرانی کھلاڑیوں کی شمولیت پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے اولمپیاکوس پیریئس نامی کلب کی انتظامیہ پر کئی حلقوں کی طرف سے سامیت دشمن تنقید کی جا رہی ہے۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی جمعرات سولہ اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق فٹ بال کو بین الاقوامی سطح پر ایک ایسا کھیل سمجھا جاتا ہے، جو مختلف اقوام اور نسلوں کے انسانوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے اور فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا بھی اس کھیل میں نسل پرستی اور کسی بھی طرح کے امتیازی رویوں کے سخت خلاف ہے۔
دوسری طرف اولمپیاکوس پیریئس کی فٹ بال ٹیم میں ایک ایرانی کھلاڑی اور ایک اسرائیلی کھلاڑی کی باقاعدہ معاہدوں کے ساتھ شمولیت کے بعد اس کلب پر جو زبانی اور تحریری سامیت دشمن حملے کیے جانے لگے ہیں، وہ ایک ایسا مسئلہ ہیں، جس پر قابو پانا اس کھیل کے لیے بھی بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔
یونانی شہر پیریئس (Piraeus) کا یہ فٹ بال کلب ملک کے کامیاب ترین کلبوں میں شمار ہوتا ہے۔ اپنے خلاف سامیت دشمن سوچ کی مظہر تنقید کے بعد اولمپیاکوس پیریئس کو واضح طور پر کہنا پڑا، ’’اولمپیاکوس ہر طرح کے امتیازی رویوں کے خلاف ہے۔‘‘ ساتھ ہی اس کلب نے ایک ایسی مہم بھی شروع کر دی ہے، جس کے ذریعے نسل پرستی اور امتیازی رویوں کے خلاف اور باہمی برداشت، احترام اور فیئر پلے کے حق میں آواز بلند کی جا رہی ہے۔
پیریئس یونان کا بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک بندرگاہی شہر ہے، جہاں کے اس فٹ بال کلب نے کہا ہے کہ باہمی احترام اور برداشت کی جن اقدار کی فٹبال کا کھیل نمائندگی کرتاہے، اولمپیاکوس پیریئس بھی خود کو انہی اقدار کا پابند محسوس کرتا ہے۔
اس کلب کو اپنے خلاف تنقید کا سامنا اس وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے کہ اس نے اس سال جنوری سے ایران کی قومی فٹ بال ٹیم کے نائب کپتان احسان حاج صفی کو اپنی ٹیم میں شامل کر رکھا ہے اور اب اس نے اسرائیل کی قومی فٹ بال ٹیم کے کپتان بِبراس ناچو کی پروفیشنل فٹ بالر کے طور پر خدمات بھی حاصل کر لی ہیں۔
اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ شیعہ مسلم اکثریتی آبادی والا ایران اور یہودی اکثریتی آبادی والا اسرائیل دو ایسی ریاستیں ہیں، جو سیاسی طور پر آپس میں ’دشمن‘ ہیں اور جن کے کوئی باہمی سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ ایران نے زیادہ تر مسلم اکثریتی ریاستوں کی طرح ابھی تک اسرائیل کے وجود کو تسلیم بھی نہیں کیا۔ لیکن فٹ بال کے کھیل میں اب پہلی بار کسی ٹیم میں ان دونوں ممالک کے کھلاڑیوں کا مل کر کھیلنا ممکن ہو گیا ہے۔
ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ملکی کھلاڑیوں کا اسرائیلی کھلاڑیوں کے خلاف کسی بھی مقابلے میں حصہ لینا بھی قانوناﹰ منع ہے جبکہ یہاں تو معاملہ آپس میں مل کر کھیلنے کا ہے۔ ایرانی اور اسرائیلی کھلاڑیوں کا اس طرح مل کر کسی دوسری ٹیم کے خلاف گول کرنا یا کوئی گول کرنے کے بعد مشترکہ طور پر خوشی کا اظہار یا گلے ملنا مستقبل کا ایسا منظر ہو سکتا ہے، جسے خاص طور پر ایران میں شاید پسند نہ کیا جائے۔
فٹ بال ورلڈ کپ اور چند دلچسپ حقائق
فٹ بال کے اکیسویں عالمی کپ کی میزبانی اس برس روس کے سپرد ہے جہاں 14 جون سے 15 جولائی تک دنیا کی بہترین ٹیموں کے درمیان میچز کھیلے جائیں گے۔ فیفا ورلڈ کپ کے حوالے سے چند دلچسپ معلومات جانیے اس پکچر گیلری سے۔
اس برس بھی عالمی کپ حاصل کرنے کے لیے 32 ٹیمیں مد مقابل آئیں گی۔ ان میں آئس لینڈ اور پاناما کی ٹیمیں پہلی بار کولیفائی کرتے ہوئے حصہ لے رہی ہیں۔ سن 2026 میں فٹبال ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی ٹیموں کی تعداد 48 کر دی جائے گی۔
جرمنی ورلڈ کپ کے گزشتہ تین ٹورنامنٹس میں سب سے زیادہ گول کرنے والی ٹیم رہی ہے۔ جرمن فٹ بال ٹیم 2014ء میں اٹھارہ، 2010ء میں سولہ اور 2006ء میں چودہ گولز کے ساتھ سرفہرست رہی۔
تصویر: Imago/ActionPictures/P. Schatz
دنیا کی نصف آبادی کی دلچسپی
اعداد و شمار اکھٹا کرنے والے ایک ادارے کے مطابق فٹ بال کے اس برس عالمی کپ کو صرف ٹی وی پر ہی دیکھنے والوں کی تعداد 3.2 بلین ہو گی، جو دنیا کی تقریباﹰ نصف آبادی کے برابر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ایران کے لیے سنگ میل
ایران اس برس پہلی بار متواتر دوسری مرتبہ عالمی کپ کھیلے گا۔
تصویر: Mehr
سب سے چھوٹا ملک
آئس لینڈ اس ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنے والا دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔
تصویر: picture-alliance/Back Page Images
دو براعظموں میں میچز
یہ پہلی بار ہو گا جب فٹ بال ورلڈ کپ کے میچ دو بر اعظموں، یورپ اور ایشیا میں کھیلے جائیں گے۔ اب کے عالمی مقابلوں میں سب سے کم درجہ بندی روس (65) اور سعودی عرب ( 63) کی ہے۔
تصویر: Reuters/D. Staples
64 میچز
ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس ٹورنمنٹ میں کُل 64 میچ کھیلے جائیں گے جیسے دیکھنے کے لیے اندازاﹰ دس لاکھ سے زائد غیر ملکی روس کا رخ کریں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Antonov
جیتنے والی ٹیم کو انعام
اس برس عالمی چیمپئین کا تاج سر پر سجانے والی ٹیم کو 3.8 ملین ڈالر کی انعامی رقم دی جائے گی۔ دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیم کو 2.8 ملین ڈالر کی انعامی رقم کی حقدار قرار پائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Serebryakov
9 تصاویر1 | 9
ان حالات میں اب اولمپیاکوس پیریئس کی انتظامیہ پر اس کلب کے فینز کے کئی گروپوں کی طرف سے تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ کلب انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ اسے ایران کی طرف سے بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سال کے یورپی فٹ بال سیزن کے آغاز سے قبل اس پر تہران کی طرف سے غیر معمولی دباؤ بھی ڈالا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایرانی قیادت شاید احسان حاج صفی کو اس کلب کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے پر بھی مجبورکر دے۔
یہ بات لیکن غیر واضح ہے کہ اگر 28 سالہ حاج صفی پر، جو جرمنی میں دوسرے درجے کی بنڈس لیگا کے کلب ایف ایس وی فرینکفرٹ کے لیے بھی درجنوں میچ کھیل چکے ہیں، ایرانی قیادت کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا، تو آیا وہ اسے قبول بھی کر لیں گے۔ حاج صفی نے 2017ء میں ایرانی حکام کی اس ہدایت کو بھی نظر انداز کر دیا تھا کہ وہ یورپی لیگ کے ایک میچ میں یونانی کلب پانیونیوس ایتھنز کی طرف سے کھیلتے ہوئے اسرائیلی کلب مکابی تل ابیب کے خلاف میچ میں شامل نہ ہوں۔
اب لیکن ڈی پی اے کے مطابق ایرانی وزارت کھیل نے کھل کر یہ مطالبہ بھی کر دیا ہے کہ احسان حاج صفی کو قومی فٹ بال ٹیم سے خارج کر دیا جائے۔ حاج صفی نے روس منعقدہ امسالہ فیفا ورلڈ کپ کے ابتدائی راؤنڈ میں ایران کی طرف سے تینوں میچوں میں حصہ لیا تھا اور دو میچوں میں تو وہ ایرانی ٹیم کی کپتان تھے۔
م م / ع ب / ڈی پی اے
فٹبال عالمی کپ کی تاریخ کی مختصر جھلکیاں
روس میں چودہ جون سے اکیسویں عالمی کپ فٹبال کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ ارجنٹائن کے ایک کارٹونسٹ گیرمان آکچیل نے چراسی سالہ عالمی مقابلوں کے چند اہم و دلچسپ لمحات کو مزاحیہ تحریروں کے ساتھ کارٹون کی صورت میں پیش کیا ہے۔
تصویر: Aczel / Edel Books
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔
پہلا عالمی کپ 1930ء میں یوروگائے میں منعقد ہوا تھا۔ زیادہ تر ٹیموں کا تعلق شمالی، وسطی اور جنوبی امریکا سے تھا، جبکہ یورپ سے صرف چار ٹیموں نے بحری جہازوں کے ذریعے طویل سفر کر کے عالمی مقابلے میں شرکت کی۔ فائنل میں میزبان ٹیم نے روایتی حریف ارجنٹائن کو چار کے مقابلے میں دو گول سے شکست دے کر عالمی کپ اپنے نام کیا تھا۔
تصویر: Aczel/Edel Books
سوئس شہر ’بیرن‘ میں معجزہ
دوسری عالمی جنگ کے بعد 1954ء میں پہلا فٹبال عالمی کپ سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہوا۔ اس بار ہنگری کی ٹیم نے سپر سٹار کھلاڑی فرینک پسکاس کے ساتھ عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ راؤنڈ میچز میں تو جرمن ٹیم کو ہنگری کے خلاف شکست سے دوچار ہونا پڑا لیکن فائنل میں جرمنی نے دو کے مقابلے تین گول سے ہنگری کو شکست دے کر پہلی مرتبہ عالمی چیمپئن کا اعزاز حاصل کرلیا۔
تصویر: Aczel/Edel Books
برطانیہ کا ابھی تک کا واحد اعزاز
1966ء میں میزبان ملک برطانیہ، فٹبال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عالمی کپ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ فائنل کے سنسنی خیز مقابلے میں برطانیہ نے جرمنی کو دو کے مقابلے چار گول سے شکست دی تھی۔ اس میچ کے حوالے سے شائقین فٹبال آج بھی مشہور ’ویمبلی گول‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ تصویر میں برطانوی کھلاڑی بابی مور دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ فاتح ٹرافی کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔
تصویر: Aczel/Edel Books
’پیلے‘ کا سامبا رقص
1970ء میں برازیل تیسری مرتبہ عالمی چیمپئن بن گیا۔ بیسویں صدی کے بہترین کھلاڑی پیلے نے ساتھی کھلاڑیوں کے ہمراہ اٹلی کو فائنل میں شکست دی۔ برازیل کی ٹیم عالمی ٹورنامنٹ کے چھ میچوں میں انیس گول کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ پہلا موقع تھا جب تمام کھلاڑی ٹیلی وژن کی رنگین سکرین پر نمودار ہوئے تھے۔
تصویر: Aczel/Edel Books
جرمنی میں عالمی کپ کی میزبانی
1974ء میں مشرقی و مغربی جرمنی کی فٹبال ٹیموں کے درمیان مقابلہ اس عالمی کپ کی خاص یادگاروں میں سرفہرست ہے۔ میونخ کے اولمپک سٹیڈیم میں میزبان ٹیم ہالینڈ کے خلاف فائنل میں فاتح ٹیم رہی۔ فاتح گول کرنے والے جرمن کھلاڑی گیئرڈ میولر کو ’بومبر دیر ناشیون‘ یعنی ’قومی بمبار‘ کے نام سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
تصویر: Aczel/Edel Books
میراڈونا کے ناقابل یقین گول
1986ء کے عالمی کپ کو ارجنٹائن کے سپرسٹار کھلاڑی دئیگو میراڈونا سے منسلک کیا جاتا ہے۔ میراڈونا کے غیر معمولی کھیل کی وجہ سے ارجنٹائن دوسری بار عالمی چیمپئن بن گیا۔ میراڈونا نہ صرف خوبصورت بلکہ نا ممکن گول کرکے اپنے شائقین کو حیران کرتے تھے۔
تصویر: Aczel/Edel Books
فٹبال کے میدان پر حملے کا انوکھا انداز
1990ء میں اٹلی میں جرمنی نے تیسری مرتبہ عالمی چیمپئن کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔ فائنل میں جرمنی نے ارجنٹائن کو شکست دی تھی۔ تاہم اس عالمی کپ کی یادگار بنا کوارٹر فائنل میں ہالینڈ کے قومی کھلاڑی فرانک ریکارڈ کا جرمن کھلاڑی روڈی فؤلر پر تھوکنا۔ نتیجتاﹰ ریفری نے دونوں کھلاڑیوں کو میدان سے باہر نکالنے کا فیصلہ کردیا۔
تصویر: Aczel/Edel Books
زیڈان کی ٹکر
2006ء میں جرمنی نے ایک مرتبہ پھر عالمی کپ کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ اٹلی اور فرانس کے درمیان سنسنی خیز فائنل کا فیصلہ پیلنٹی سٹروک کے ذریعہ کیا گیا۔ فرانسیسی کپتان زیڈان کا اطالوی کھلاڑی ماتا رازی کو غصہ میں سر سے ٹکر مارنا ٹورنامنٹ کا یادگار لمحہ رہا۔ جس کے بعد زیڈان کے شاندار کیریئر کا اختتام ایک افسوسناک انداز میں پیش آیا۔
تصویر: Aczel/Edel Books
آخرکار قسمت کی دیوی اسپین پر بھی مہربان
عالمی کپ 2010ء اس بار قسمت کی دیوی ہسپانوی ٹیم پر مہربان ہوگئی۔ اسپین نے اپنے مخصوص کھیل کے انداز’ ٹیکی ٹاکا‘ سے جنوبی افریقہ کو شکست دی۔ اس جیت کا سپین کی بہترین فتوحات میں شمار ہوتا ہے۔
تصویر: Aczel/Edel Books
لیونل میسی، فٹبال کے بادشاہ
برازیل میں منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل تک ارجنٹائن کو پہنچانے کا سہرا فٹبال کے بادشاہ کہلانے والے لیونل میسی کے سر جاتا ہے۔ تاہم فائنل میں جرمنی نے کانٹے دار مقابلے میں ایک گول سے فتح حاصل کرلی۔
تصویر: Aczel / Edel Books
جرمنی، چوتھی مرتبہ عالمی چیمپئن
ریو ڈی جینیرو کے ماراکانا سٹیڈیم میں پچھتر ہزار شائقین کی موجودگی میں کھیلے جانے والے فائنل میں جرمن ٹیم امریکی براعظم پر عالمی کپ جیتنے والی پہلی یورپی ٹیم بن گئی۔ اس تصویر میں جرمنی کی فاتح ٹیم دیکھی جاسکتی ہے۔
تصویر: Aczel / Edel Books
متنازعہ میزبان ملک
چودہ جون سے شروع ہونے والے عالمی کپ کی میزبانی روس کررہا ہے۔ تاہم عالمی مقابلے سے قبل کرپشن اور ڈوپنگ جیسی خبروں نے روس کو متنازعہ بنادیا ہے۔ عالمی کپ 2018ء کا افتتاحی میچ سعودی عرب اور روس کے درمیان کھیلا جائے گا۔
تصویر: Aczel / Edel Books
فٹبال ورلڈ کپ کی تاریخ، کارٹون کی صورت میں
’ورلڈ کپ 1930ء سے 2018ء‘ تک کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں فٹبال ورلڈ کپ کی چوراسی سالہ تاریخ کو کارٹون کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ مزید ان دلچسپ لمحات کی کہانی کو مزاحیہ تحریروں میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کے سرِورق پر مشہور کھلاڑیوں کے کارٹون بنائے گئے ہیں، جن میں رونالڈو، میسی، نوئر اور نیمار شامل ہیں۔
تصویر: Aczel / Edel Books
کارٹونسٹ گیرمان آکچیل
ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے کارٹونسٹ نے اپنے فن کا آغاز آبائی شہر بیونس آئرس سے کیا۔ جہاں وہ مختلف کھیل کے ایک جریدے ’ایل گرافیکو‘ سے منسلک رہے۔ چھبیس سال کی عمر میں وہ جرمنی منتقل ہوگئے۔ اب وہ فٹبال کے معروف انگریزی جریدے ’فور فور ٹو‘ کے لیے کارٹون بناتے ہیں۔