اسرائیلی جنگی طیاروں کے غزہ پٹی میں حماس کے خلاف فضائی حملے
26 اگست 2019
اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ پٹی کے شمالی حصے میں پیر چھبیس اگست کی صبح کئی مقامات پر حماس کے خلاف فضائی حملے کیے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ کارروائی ان راکٹ حملوں کے جواب میں کی گئی جو غزہ سے اسرائیل پر فائر کیے گئے تھے۔
اشتہار
یروشلم سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے تصدیق کی کہ غزہ پٹی سے ویک اینڈ پر اسرائیل پر فائر کیے جانے والے تین راکٹوں میں سے دو کو اسرائیلی دفاعی نظام 'آئرن ڈوم‘ کی مدد سے ہوا میں ہی تباہ کر دیا گیا تھا اور مجموعی طور پر ان حملوں میں کوئی بھی زخمی نہیں ہوا تھا۔
اس کے بعد آج پیر کی صبح اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ پٹی کے شمالی حصے میں غزہ پر حکمران فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے متعدد عسکری اہداف کو نشانہ بنایا۔
آئی ڈی ایف کے ایک بیان کے مطابق ان حملوں میں حماس کے ایک ملٹری کمپاؤنڈ کے علاوہ ایک ایسی عمارت کو بھی ہدف بنایا گیا، جس میں حماس کے ایک بٹالین کمانڈر کا دفتر قائم تھا۔ فلسطینی سکیورٹی ذرائع کے مطابق ان اسرائیلی فضائی حملوں میں کوئی شخص زخمی نہیں ہوا۔
غزہ کو ایندھن کی ترسیل میں مزید کمی
اسرائیلی حکام نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے حکم پر، جو سربراہ حکومت ہونے کے علاوہ ملکی وزیر دفاع بھی ہیں، غزہ پٹی کے مرکزی بجلی گھر کو مہیا کیے جانے والے ایندھن کی سپلائی بھی مزید کم کر دی گئی ہے۔ اسرائیل غزہ میں اس پاور پلانٹ کے لیے ایندھن کی ترسیل پہلے ہی بہت کم کر چکا تھا اور مزید کمی کا مطلب یہ ہو گا کہ اب اس فلسطینی خطے کے توانائی کے مسائل شدید تر ہو جائیں گے۔
اے ایف پی کے مطابق اسرائیل سے کیریم شالوم کی سرحدی گزرگاہ کے ذریعے غزہ پٹی کو اب تک اس کے مرکزی بجلی گھر کے لیے جتنا بھی ایندھن فراہم کیا جاتا تھا، وزیر اعظم نیتن یاہو کے حکم پر اب غیر معینہ مدت تک کے لیے اسے نصف کر دیا گیا ہے۔
اسرائیلی جنگی طیاروں کی شام میں بھی بمباری
اسی دوران یہ رپورٹیں بھی ملی ہیں کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے جنگ زدہ ہمسایہ ملک شام میں بھی دارالحکومت دمشق کے نواح میں کئی مقامات پر بمباری کی ہے، جس میں شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائتس کے مطابق لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے دو جنگجوؤں اور ایک ایران فوجی کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
دریں اثناء اسرائیل نے ہمسایہ ملک لبنان میں بھی اپنے دو ڈرون طیاروں کے ذریعے فضائی حملے کیے ہیں، جن کے بعد خطے میں عسکری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق لبنان میں کیے گئے ڈرون حملوں میں حزب اللہ کے ایک میڈیا سینٹر کو تباہ کر دیا گیا۔
اس فضائی حملوں کے بعد حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصراللہ نے اپنے ایک خطاب میں اسرائیل کے خلاف جوابی انتقامی کارروائی کا اعلان کیا ہے۔
م م / ع ا / اے ایف پی
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔