اسرائیلی خاتون فوجی کی متنازعہ تصاویر پر ہنگامہ
17 اگست 2010اِن تصاویر کو عنوان دیا گیا تھا: ’’اسرائیلی فوج، میری زندگی کا بہترین دور۔‘‘ اسرائیلی فوج کی اِس سابق سپاہی ایڈن اشداد ابرجیل کے اِس اقدام پر اسرائیل کے اندر اور باہر ایک ہنگامہ بپا ہو گیا ہے۔ آج منگل کو اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے کہا: ’’اِس خاتون فوجی کا یہ اقدام شرمناک طرزِ عمل ہے۔‘‘ ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ اِس خاتون فوجی کی مدتِ ملازمت گزشتہ سال سے ہی ختم ہو چکی ہے۔
اِن تصاویر میں ایسے فلسطینی قیدی نظر آ رہے ہیں، جن کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں اور جنہیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ اِس خاتون نے اسرائیلی فوجی وردی میں ملبوس ہوتے ہوئے یہ تصاویر اُس وقت اُتروائیں، جب اُسے اِن قیدیوں کا پہرہ دینے کا کام سونپا گیا تھا۔ فیس بُک پر اُس کے دوستوں نے جو تبصرے بھیجے، اُن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اِن تصاویر میں وہ بہت سمارٹ اور جاذبِ نظر دکھائی دے رہی ہے۔
دریں اثناء اِس خاتون فوجی نے یہ تصاویر اپنے فیس بُک پیج سے ہٹا دی ہیں۔ آج منگل کو اِس فوجی نے اپنے طرزِ عمل کے لئے معذرت چاہی ہے۔ اسرائیلی نیوز وَیب سائٹ ’وائی نیٹ‘ سے باتیں کرتے ہوئے ایڈن اشداد نے کہا: ’’اگر کسی کو میرے اِس اقدام سے ٹھیس پہنچی ہے، تو مَیں معذرت چاہتی ہوں۔‘‘ ایڈن اشداد نے شکایت کی کہ اِن تصاویر کی اشاعت پر اُسے اب تک قتل کی بھی کئی دھمکیاں مل چکی ہیں۔
یہ تصاویر 2008ء میں غزہ کے قریب کہیں اُتاری گئی تھیں۔ اپنے ابتدائی ردعمل میں اِس فوجی نے کہا تھا کہ اِن تصاویر پر کی جانے والی تنقید ’اُس کے لئے ناقابلِ فہم ہے کیونکہ اِن تصاویر میں کسی پر بھی تشدد ہوتے نہیں دکھایا گیا۔‘ اُس نے کہا: ’’حقیقت تو یہ ہے کہ مَیں نے ہمیشہ اِن قیدیوں کا بہت خیال رکھا۔‘‘
تصاویر کے اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کا اِس سے زیادہ نامناسب وقت کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ یہ ایک ایسے وقت پر جاری ہوئی ہیں، جب مشرقِ وُسطیٰ امن عمل کو آگے بڑھانے کے لئے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان براہِ راست مذاکرات عمل میں لانے کے لئے بھر پور طریقے سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
جبر و تشدد کے انسداد کی اسرائیلی کمیٹی کے ڈائریکٹر جشائی مینوشم نے بھی ایک بیان میں اِس خاتون فوجی کے اقدام کی مذمت کی ہے: ’’یہ تصاویر ایک ایسا طرزِ عمل دکھاتی ہیں، جو ایک معمول بن چکا ہے کہ فلسطینیوں کو انسانوں کے طور پر نہیں بلکہ بے جان اَشیاء کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اُن کے ساتھ سلوک بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے۔‘‘
فلسطینیوں نے بھی ان تصاویر کی مذمت کی ہے۔ فلسطینی انتظامیہ کے ایک ترجمان غسان خطیب نے کہا، یہ تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیسے اسرائیلیوں کو بگاڑ رہا ہے: ’’یہ تصاویر قابض قوم کی ذہنیت ظاہر کرتی ہیں کہ وہ فلسطینیوں کی تذلیل میں فخر محسوس کرتی ہے۔ اسرائیلی قبضے کے دوران یہ طرزِ عمل روزمرہ کا معمول ہے حالانکہ کسی بھی طرح سے اِس تذلیل کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک