اسرائیلی ریاست کے 70 برس: اطمینان اور نا پسندیدگی ساتھ ساتھ
18 اپریل 2018
اسرائیل ریاست اپنے قیام کے ستر برس مکمل ہونے کی تقریبات منا رہی ہے۔ اسرائیلی عوام میں جہاں اقتصادی آسودگی ہے وہاں اُسے فلسطینی مزاحمت کی وجہ سے بےچینی کا بھی سامنا ہے۔
اشتہار
اسرائیل نے گزشتہ ستر برسوں میں محدود قدرتی وسائل کے باوجود عسکری اور ٹیکنالوجی کے مختلف پہلووں میں کئی کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے عالمی سطح پر بڑا نام کمایا ہے۔ اس ملک میں اس وقت بھی سائنس کے مختلف شعبوں میں آٹھ نوبل انعام یافتگان زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ ریاست دنیا کی تینتیسویں بڑی اقتصادیات کی حامل ہے۔
اسرائیلی ریاست کو کئی حوالوں اور خاص طور پر فلسطینی عوام کے ساتھ امن معاہدے کو حتمی شکل نہ دینے کے حوالے سے شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ فلسطینی امن معاہدے کو طے کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں اور اس کے جواب میں فلسطینی لیڈروں کا بھی ایسا ہی موقف ہے۔ اس کے باوجود اس عرصے کے دوران اسرائیلی ریاست کے کئی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں بہتری ہوئی ہے۔
اسرائیلی ریاست کو برس ہا برس سے فلسطینی تنازعے کا بھی سامنا ہے۔ اس کی وجہ سے اس ریاست کے اندر مذہبی، نسلی اور اقتصادی تقسیم بھی واضح طور پر پائی جاتی ہے۔ فلسطینی تنازعے کی وجہ سے اس ریاست کو اپنے خطے میں عدم تسلیم کی پالیسی کا سامنا ہے۔ اس کے ہمسایہ ملکوں میں صرف مصر اور اردن نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔ فلسطینی تنازعے کی وجہ سے کئی ممالک اسرائیل پر جنگی جرائم سرزد کرنے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔
سن 1990 میں وسیع تر امن کے امکانات روشن ضرور ہوئے مگر وہ بتدریج معدوم ہوتے چلے گئے۔ اسرائیل کو مسلح فلسطینیوں کی عسکری سرگرمیوں کا مسلسل خوف لاحق رہتا ہے۔ انتہاپسند فلسطینی عسکری تنظیمیں اسرائیل کو نابود کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب سب سے بڑے فلسطینی دھڑے الفتح نے اس پالیسی کو ختم کر دیا ہے۔ اب اسرائیل کو ایران کی عسکری قوت سے بھی پریشانی ہے کیونکہ اسرائیلی ریاست کے ہمسایہ ملک شام میں ایران کی فوجی موجودگی پائی جاتی ہے۔
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔ اس بات کو سات دہائیوں سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ ممالک کون سے ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kahana
1. افغانستان
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2. الجزائر
عرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ الجزائر سن 1962 میں آزاد ہوا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر الجزائر کا سفر ممکن نہیں۔ سن 1967 کی جنگ میں الجزائر نے اپنے مگ 21 طیارے اور فوجی مصر کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/A. Widak
3. انڈونیشیا
انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ سن 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rante
4. ايران
اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم سن 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: khamenei.ir
5. برونائی
برونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Rani
6. بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی حمایت کی تھی اور اس کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
7. بھوٹان
بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ بھوٹان کے خارجہ تعلقات بطور ملک بھی کافی محدود ہیں اور وہ چین اور اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو تسلیم نہیں کرتا جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
8. پاکستان
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف عسکری مدد روانہ کی تھی اور اسرائیل نے مبینہ طور پر پاکستانی جوہری منصوبہ روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پاکستان نے بھی دو ریاستی حل تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
9. جبوتی
جمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔
تصویر: DW/G.T. Haile-Giorgis
10. سعودی عرب
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے سن 2002 میں ایک ہمہ جہت امن منصوبہ تجویز کیا لیکن تب اسرائیل نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ سعودی عرب نے اسرائیل اور یو اے ای کے تازہ معاہدے کی حمایت یا مخالفت میں اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ہمسایہ ممالک اسرائیل اور شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو پائے۔ دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں شام کے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسرائیل خود کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے شام میں کئی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
شمالی کوریا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے سن 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
13. صومالیہ
افریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Chiba
14. عراق
عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ عراقی کردوں نے تاہم اپنی علاقائی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
تصویر: DW
15. عمان
عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم سن 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو سن 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ عمان بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
16. قطر
قطر اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اماراتی فیصلے کے بارے میں قطر نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
17. کوموروس
بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
18. کویت
کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے بارے میں کویت نے دیگر خلیجی ریاستوں کے برعکس ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Gambrell
19. لبنان
اسرائیل کے پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے سن 1982 اور سن 2005 میں بھی لبنان پر حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. A. Akman
20. لیبیا
لیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔
21. ملائیشیا
ملائیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
تصویر: Imago/Zumapress
22. یمن
یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
22 تصاویر1 | 22
اندرونی طور پر موجودہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سخت گیر پالیسیوں کے حامی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو، گو تین مرتبہ الیکشن جیت چکے ہیں لیکن اُن کو داخلی سیاسی کشمکش پر مکمل گرفت حاصل نہیں اور اب انہیں کرپشن الزامات کا بھی سامنا ہے۔
اسرائیل کی آبادی نوے لاکھ کے لگ بھگ ہے اور اس کی فی کس سالانہ شرح پیدوار چالیس ہزار ڈالر ہے اور یہ جنوبی کوریا اور اٹلی کے مساوی ہے۔
غزہ کے شہریوں پر ٹوٹتی قیامت
اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف دو ہفتے سے جاری کارروائی میں اب تک بڑی تعداد میں بچوں اور خواتین سمیت سینکڑوں فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: DW/Shawgy el Farra
غزہ کے شہریوں کی بے بسی
مسلسل حملوں کے نتیجے میں غزہ کے اندر پورا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ غزہ کا ستر فیصد علاقہ بجلی سے محروم ہے جبکہ صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ بھی سنگین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ غزہ کے بے بس باسیوں کے پاس سوائے اپنے عزیزوں کی موت پر رونے کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
تصویر: DW/Shawgy el Farra
اپنے پیاروں کی موت پر نوحہ کناں
غزہ پٹی کے جنوبی علاقے رفاہ میں اسرائیلی شیلنگ میں مارے جانے افراد کے قریبی عزیز اُن کی موت پر آنسو بہا رہے ہیں۔ اسرائیلی ٹینکوں کی گولہ باری کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے بھی حماس کے ٹھکانوں پر بمباری جاری ہے۔
تصویر: Reuters
اپنے وطن میں در بدر
اسرائیلی آپریشن کے نتیجے میں غزہ کے شمالی حصے سے ہزارہا فلسطینی شہریوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد نے مختلف اسکولوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے فراہم کیے گئے مراکز میں پناہ لے رکھی ہے۔
تصویر: DW/Shawgy el Farra
معصوم آنکھوں میں لرزتا خوف
ایک فلسطینی لڑکا اپنے گھر کا کچھ بچا کھچا سامان لیے ایک ایسے گھر کے پاس سے گزر رہا ہے، جو پولیس کے مطابق اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ایک فضائی حملے میں تباہ ہو گیا تھا۔ عالی سطح پر فائر بندی کی اپیلوں کے باوجود فلسطینی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور مرنے والوں کی تعداد پانچ سو سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔
تصویر: Reuters
آگ اگلتی اسرائیلی توپیں
غزہ پٹی کے ساتھ ملنے والی اسرائیلی سرحد کے قریب ایک اسرائیلی توپ خانے سے 155 ملی میٹر کے گولے غزہ میں عسکریت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں کی جانب پھینکے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ شہریوں کو پہلے سے مطلع کر دیا گیا تھا کہ وہ غزہ کے شمالی علاقے خالی کر دیں جبکہ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی کا کوئی بھی مقام اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔
تصویر: J.Guez/AFP/Getty Images
زیر زمین سرنگوں کے خلاف زمینی آپریشن
اسرائیلی ٹینک غزہ پٹی کے شمالی حصے میں سرگرم عمل نظر آ رہے ہیں۔ غزہ کے خلاف زمینی آپریشن شروع کرنے والے اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر ایسی زیر زمین سرنگوں کو نشانہ بنا رہا ہے، جو حماس کے جنگجوؤں نے بنا رکھی ہیں اور جن کے راستے یہ جنگجو زمین کے اندر سے سرحد پار کر کے اسرائیلی سرزمین تک بھی جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters
’کس سے منصفی چاہیں‘
ایک فلسطینی خاتون اپنے قریبی عزیزوں کے ایک گھر کے ملبے کے پاس بیٹھی بین کر رہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خان یونس مہاجر کیمپ کے قریب واقع یہ مکان اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں تباہ ہو گیا تھا۔
تصویر: Reuters
’کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے؟‘
ایک فلسطینی شہری اپنے تباہ شُدہ مکان کے ملبے میں سے ایک میٹریس نکال کر باہر لا رہا ہے۔ یہ مکان غزہ پٹی کے جنوبی حصے کے علاقے خان یونس میں واقع تھا۔ دو ہفتوں سے جاری اسرائیلی حملوں کی شدت میں سرِ دست کسی کمی کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
پناہ کی تلاش میں
غزہ کے مشرقی علاقے شجائیہ کے باسیوں کے لیے اتوار بیس جولائی کا دن انتہائی خونریز ثابت ہوا۔ اُس روز اسرائیل کی جانب سے اس علاقے پر شدید گولہ باری کے بعد سڑکوں پر لاشیں ہی لاشیں نظر آ رہی تھیں۔ اس کے بعد وہاں کے رہائشی افراتفری میں اپنے بچوں کو لے کر محفوظ مقامات کی طرف دوڑ پڑے۔ شدید گولہ باری کی وجہ سے ایمبولینسیں بھی سرحد کے قریب واقع مقامات پر پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے نہ جا سکیں۔
تصویر: M.Abed/AFP/Getty Images
کھنڈرات کے بیچوں بیچ
دو ہفتوں سے جاری اسرائیلی آپریشن نے غزہ پٹی کے کئی مقامات کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان کا سامنا عام شہریوں کو کرنا پڑا ہے تاہم اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس اور دیگر جہادی گروپ ان فلسطینی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے رہے اور یہ کہ ان شہریوں کو اسلحے کے زور پر جنگجوؤں کے ٹھکانوں اور عسکری مراکز کے قریب پکڑ کر رکھا گیا۔