اسرائیلی سرحد پر فلسطینی مظاہرے، قائد اب حماس کے رہنما ہنیہ
18 مئی 2018
فلسطینی علاقے غزہ پر حکمران حماس تحریک کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ غزہ کی اسرائیل کے ساتھ ملنے والی سرحد پر فلسطینیوں کے احتجاجی مظاہروں کی قیادت اب وہ خود کریں گے۔ انہوں نے کہا، ’’پہلے میں جاؤں گا، پھر آپ۔‘‘
اشتہار
غزہ پٹی کے مرکزی شہر غزہ سٹی سے جمعہ اٹھارہ مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اسماعیل ہنیہ نے یہ بات غزہ اور اسرائیل کے درمیانی سرحدی علاقے میں ہونے والے ان خونریز مظاہروں کے محض چار روز بعد کہی، جب اسی ہفتے پیر کے روز اس سرحدی علاقے میں فلسطینی مظاہرین پر اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے کم از کم 60 فلسطینی ہلاک ہو گئے تھے۔
حماس کے سربراہ نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ غزہ اور اسرائیل کے درمیانی سرحدی علاقے میں فلسطینیوں کے مظاہرے آئندہ بھی جاری رہیں گے، اس امر کی واضح طور پر تردید کی کہ ایسا کوئی مبینہ معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت گزشتہ سات ہفتوں سے جاری ان مظاہروں کو اب ختم کر دیا جائے گا۔
آج 18 مئی کو، جب رمضان کے اسلامی مہینے کا پہلا جمعہ ہے، اسماعیل ہنیہ نے غزہ سٹی میں جمعے کی نماز کے وقت ایک مسجد میں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائل کے ساتھ سرحد پر مظاہروں کی قیادت اب وہ خود کریں گے۔ ہنیہ نے کہا، ’’ہم غزہ کی سرحد تک جائیں گے۔ پہلے میں اور پھر آپ۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق اپنے اس خطاب میں اسماعیل ہنیہ نے یہ بھی کہا، ’’جب تک اسرائیل کی طرف سے غزہ پٹی کی ناکہ بندی اور محاصرہ ختم نہیں کیے جاتے، ہمارا احتجاجی مارچ جاری رہے گا۔‘‘ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اپنے اس خطاب کے بعد آج جمعے ہی کے روز اسماعیل ہنیہ کو مقامی وقت کے مطابق سہ پہر چار بجے غزہ سٹی سے غزہ کی اسرائیل کی ساتھ سرحد کی طرف جانا تھا، لیکن یہ بات واضح نہیں کہ اس وقت ممکنہ طور پر ان کے ساتھ کتنے فلسطینی مظاہرین ہو سکتے تھے۔
قبل ازیں کل جمعرات سترہ مئی کو مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے مصر کی غزہ کے ساتھ رفح نامی سرحدی گزرگاہ کو رمضان کے مہینے کے پیش نظر اس لیے دوبارہ کھول دینے کا حکم دے دیا تھا تاکہ اس اسلامی مہینے کے دوران غزہ کے پٹی کے عوام کی روزمرہ تکالیف میں کمی کی جا سکے اور انہیں مناسب مقدار میں اشیائے خوراک بھی مہیا ہو سکیں۔
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
10 تصاویر1 | 10
مصر، جو اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے غزہ پٹی اور اسرائیل دونوں کا ہمسایہ بھی ہے اور 1979ء میں اسرائیل کے ساتھ ایک باقاعدہ امن معاہدہ بھی طے کر چکا ہے، کے بارے میں مقامی میڈیا میں یہ خبریں بھی دیکھنے میں آئی تھیں کہ مصر کی ثالثی میں اسرائیل اور غزہ میں حماس کے مابین مبینہ طور پر ایک معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے بعد غزہ کی سرحد پر فلسطینیوں کے مظاہرے ختم کر دیے جائیں گے۔
اس بارے میں اسماعیل ہنیہ نے غزہ پٹی کے ساتھ مصر کی رفح نامی سرحدی گزرگاہ کو دوبارہ کھولنے کے مصری صدر السیسی کے فیصلے کا خیر مقدم تو کیا تاہم ساتھ ہی ان افواہوں کی پرزور تردید بھی کی کہ فلسطینیوں کے احتجاجی مظاہرے ختم کر دینے سے متعلق کوئی ڈیل طے پا گئی ہے۔ ہنیہ نے کہا، ’’یہ ایک بے بنیاد افواہ ہے کہ حماس نے مصر کے ساتھ ان مظاہروں کو ختم کر دینے سے متعلق کوئی تصفیہ کر لیا ہے۔‘‘
غزہ پٹی کی اسرائیل کے ساتھ سرحد کے ساتھ ساتھ فلسطینی مظاہرین نے ہر جمعے کے روز اپنے جن ہفتہ وار احتجاجی مظاہروں کا آغاز 30 مارچ کو کیا تھا، ان کے نتیجے میں اب تک کم از کم بھی 116 فلسطینی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ ان فلسطینی مظاہرین کی بہت بڑی اکثریت اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک یا زخمی ہوئی۔
م م / ع ح / اے ایف پی
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
غزہ پٹی ميں دو نوجوان لڑکياں ’انسٹاگرام‘ کی مدد سے دنيا کو اپنے علاقے کا ايک ايسا رخ دکھانے کی کوششوں ميں ہيں، جو اس علاقے کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثرات کے بالکل مختلف ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔