اسرائیلی صدر کے دورے پر متحدہ عرب امارات پر میزائل حملہ
31 جنوری 2022
متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ اس نے حوثی باغیوں کی جانب سے ایک بیلیسٹک میزائل حملے کو ناکام بنا دیا۔ ادھر اسرائیلی صدر نے متحدہ عرب امارات پر ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ملک کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
متحدہ عرب امارات نے 31 جنوری پیر کے روز بتایا کہ جب اسرائیلی صدر آئزک ہیرزوگ ملک کا دورہ کر رہے تھے، اسی دوران یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے ایک بیلیسٹک میزائل حملہ ہوا تاہم اسے فضا میں ہی روک کر حملے کو ناکام بنا دیا گیا۔
اماراتی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ چونکہ میزائل آبادی والے علاقوں سے باہر گرا اس لیے حملے میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔
ادھر آئزک ہیرزوگ کے دفتر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی صدر کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ اپنے دورے کوپروگرام کے مطابق جاری رکھیں گے۔
اسرائیلی صدر نے کیا کہا؟
اسرائیلی صدر آئزک ہیرزوگ نے دورے کے دوران کہا کہ اسرائیل متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی سیکورٹی و سلامتی کی ضروریات کی حمایت کرتا ہے اور مضبوط علاقائی تعلقات کا خواہاں ہے۔
اسرائیلی رہنما کے دفتر کے ایک بیان کے مطابق، ہیرزوگ نے ولی عہد شہزادہ شیخ محمد بن زائد النہیان کو بتایا، ''میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم آپ کی سیکورٹی کی ضروریات کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور ہم آپ کی خود مختاری پر کسی بھی قسم کے حملے کی ہر طرح اور ہر زبان میں مذمت کرتے ہیں۔''
اسرائیل صدر اور متحدہ عرب امارت کے درمیان اس طرح کی بات چیت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب کچھ روز قبل ہی یمن کے حوثی باغیوں نے ایک حملہ کیا تھا جس میں متحدہ عرب امارات میں تین عام شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
ہیرزوگ نے ابوظہبی کے الوطن محل میں شیخ محمد کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے تک بات چیت کی۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی اسرائیلی صدر نے متحدہ عرب امارات کا سفارتی دورہ کیا ہے۔
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کو یکساں خطرات کا سامنا
یمن میں حوثی باغیوں کے دارالحکومت صنعا پر قبضے کے ایک برس بعد جب سعودی زیر قیادت عسکری اتحاد نے 2015 میں یمن میں حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے مداخلت کی، تو متحدہ عرب امارات بھی اس اتحاد میں شامل ہوا تھا اور اس کا ایک حصہ ہے۔
گزشتہ ہفتے جاری کردہ ایک خط کے مطابق، اس ماہ کے اوائل میں، اسرائیل نے ڈرون حملوں کے خلاف متحدہ عرب امارات کو سیکورٹی اور انٹیلیجنس تعاون کی پیشکش کی تھی۔
ادھر متحدہ عرب امارات کے رہنما نے کہا ہے کہ دونوں ممالک، ''علاقائی استحکام اور امن کو در پیش خطرات، خاص طور پر ملیشیاؤں اور دہشت گرد قوتوں سے لاحق خطرات کے بارے میں مشترکہ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔''
ان تمام سخت بیانات کا نشانہ در اصل ایران تھا۔ تہران کے علاقائی ہمسایہ ممالک اور امریکا،ایران پر شام اور یمن کے تنازعات میں ملوث ہو کر مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
اشتہار
اسرائیل قریبی علاقائی تعلقات کا خواہاں
بات چیت کے دوران اسرائیلی رہنما نے خطے کے مزید ممالک پر اس بات کے لیے زور دیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں شامل ہو جائیں۔امریکا کی ثالثی سے متحدہ عرب امارات نے سن 2020میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے چند معاہدوں پر دستخط کیے تھے، جسے 'معاہدہ ابراہیمی' کا نام دیا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ نے بھی دسمبر میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔
کئی عرب ریاستیں ایک طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دہائیوں پرانے تنازعے کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ رسمی تعلقات سے گریز کرتی رہی ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل اور اس کے بہت سے ہمسایہ عرب ممالک خطے میں ایران اور اس کی اتحادی افواج کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
اسرائیل اور سعودی عرب میں بھی رشتے بہتر ہیں
متحدہ عرب امارات کے سفر کے لیے راستے میں اسرائیلی صدر کے طیارے نے سعودی عرب کی فضائی حدود کااستعمال کیا اور ملک کے اوپر سے پرواز کیا، جس کے بارے میں آئزک ہیرزوگ نے کہا، ''واقعی یہ ایک بہت ہی بہترین لمحہ تھا۔''
ریاض اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ اس مملکت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح کی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان درپردہ وسیع تر سفارتی اور انٹیلیجنس تعاون ہوتا ہے۔ سعودی عرب ایران کے طاقتور ترین علاقائی حریفوں میں سے ایک ہے۔
ہیرزوگ متحدہ عرب امارات میں چھوٹی لیکن بڑھتی ہوئی یہودی تارکین وطن کی کمیونٹی کے اراکین سے ملنے والے ہیں اور دبئی میں جاری ورلڈ ایکسپو 2020 کا بھی دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔