1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی عرب خاندان: گھر بسانے کی شدید مشکلات

12 جون 2013

اسرائیل میں آباد عرب خاندانوں کی نوجوان نسل آج کل شادی کرتے وقت اپنے مستقبل کے شریک حیات کی خوبصورتی، ملازمت یا سسرال کے بارے میں نہیں بلکہ اس بارے میں سوچتی ہے کہ آیا وہ مستقبل میں ایک ساتھ رہ بھی سکیں گے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

اسرائیل کے اندر آباد عرب آبادی کی تعداد تقریباً 16 لاکھ کے قریب ہے اور ان میں سے زیادہ تر نسلی اعتبار سے فلسطینی ہیں۔ دوسری جانب مغربی کنارے اور غزہ میں 44 لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ اسرائیلی عربوں کو فلسطین اور اسرائیل کے انتہائی خراب تعلقات کا سامنا ہے اور اس باعث خاندان عائلی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو اسرائیل میں شادی کے بعد اکٹھے رہنے کے سلسلے میں کڑی پابندیوں کا سامنا ہے اور اس کی وجہ سکیورٹی بتائی جاتی ہے۔ اس مناسبت سے اسرائیل کی جانب سے زیادہ تر سخت پابندیاں گزشتہ دہائی کے دوران لگائی گئی ہیں۔

اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے عام فلسطینی لوگ بہت زیادہ پریشان ہیں۔ ان پابندیوں کی لپیٹ میں آ کر بے بہا محبتیں دم توڑ گئی ہیں۔ خاندانوں کے درمیان تعلقات میں دوریاں اور گھر بسانے کی خواہشیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس حوالے سے سِکہ اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں لیکن یہ تاثر موجود ہے کہ ہزاروں فلسطینی، اسرائیلی عرب خاندانوں میں شادی کرنے کے بعد غیر قانونی طور پر اسرائیل میں ڈھکے چھپے انداز میں رہ رہے ہیں۔ ان غیر قانونی فلسطینیوں کو جب اسرائیلی وزارت داخلہ کے حکام ڈھونڈ نکالتے ہیں تو ان کو اسرائیل بدر کر دیا جاتا ہے۔

اسرائیل کی عرب آبادی ایک مظاہرے کے دوران فلسطینی پرچم لہراتے ہوئےتصویر: Getty Images

ایسی ہی ایک خاتون سحر کبانہ ہے۔ تینتیس برس کی یہ فلسطینی خاتون بیوہ ہے۔ اس کا عرب اسرائیلی شوہر گزشتہ برس انتقال کر گیا تھا اور تب سے وہ اپنے چاروں بچوں کے ساتھ چھپ چھپا برتاع نامی گاؤں میں ناموافق حالات میں مشکل زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس کے بچے تو اسرائیل کے شہری ہیں لیکن اس کو مختلف پابندیوں کی وجہ سے اسرائیل میں رہنے کا قانونی حق نہیں دیا گیا ہے۔ وہ گرفتاری اور پھر ملک بدری کے خوف کی وجہ سے اپنے بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانے سے بھی گھبراتی ہے۔

ان اسرائیلی پابندیوں پر تنقید کرنے والے انہیں حکومت کا امتیازی سلوک قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل میں آباد یہودی اگر مغربی کنارے کے یہودی آباد کاروں میں شادی کرتے ہیں تو انہیں کسی قسم کی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ کسی اسرائیلی مرد یا خاتون سے شادی کرنے والے فرد کو اسرائیل کی شہریت حاصل کرنے کا حق حاصل ہے لیکن یہ حق فلسطینیوں کو حاصل نہیں، اس لحاظ سے بھی اسے ناقدین امتیازی اور جانبدارانہ پالیسی قرار دیتے ہیں۔ ان پابندیوں کے خلاف ایک تنظیم عدالہ (Adalah) نے عدالتی چارہ جوئی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

اسرائیل کے امن نواز یہودی حکومتی پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

عدالہ سے منسلک خاتون وکیل سواسان ظاہر کا کہنا ہے کہ اسرائیل، فلسطینیوں اور عربوں کے اکھٹے ہونے کو ایک بڑا سکیورٹی رسک خیال کرتا ہے۔ اسرائیلی حکام شادی کرنے والے ہر فرد کی کلیئرنس کو اہم خیال کرتے ہیں یا پھر شادی کرنے والا مرد یا خاتون اپنے معصوم ہونے کا ثبوت فراہم کرے۔ گزشتہ ایک دہائی میں ایک لاکھ 30 ہزار فلسطینیوں کو اسرائیل کی شہریت دی گئی۔ ان میں سے پانچ کو سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر سزا بھی سنائی گئی تھی۔ سن 2002 میں ایک فلسطینی نے حیفہ شہر میں شادی کے بعد خود کش بمبار بن کر 15 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اسرائیلی وزارت داخلہ نے اس خود کش بم حملے کے بعد سن 2003 میں نئی پابندیوں کا اطلاق کیا تھا۔

ان پابندیوں کو اسرائیل کی سپریم کورٹ نے سن 2006 اور پھر سن 2012 میں جائز قرار دیا تھا۔ اسرائیلی پارلیمان کنیسیٹ پابندیوں کا جائزہ ہر سال لیتی ہے۔ ان پابندیوں میں نرمی بھی کی گئی ہے۔ اب 35 سالہ مرد اور 25 برس کی خاتون اسرائیل کے اندر عارضی رہائش اور کام کا پرمِٹ یا اجازت نامہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اسرائیلی وزارت داخلہ کے مطابق اِس وقت آٹھ ہزار فلسطینی عبوری رہائشی اجازت نامے رکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے کہ اسرائیل کے شہریوں کو فلسطینی علاقوں میں رہائش رکھنے کی اجازت نہیں ہے خواہ وہ اسرائیلی عرب ہی کیوں نہ ہوں۔ کئی اسرائیلی عرب خواتین غیر قانونی طور پر ویسٹ بینک میں شادی کے بعد وہیں مقیم ہیں۔ اسرائیلی حکام کو اگر ایسی کسی خاتون کے بارے میں معلومات حاصل ہو جائیں تو وہ سرکاری سوشل ویلفیئر مراعات سے محروم ہو سکتی ہے۔

(ah/aa(AP

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں