اسرائیلی فائرنگ سے مزید دو فلسطینی ہلاک، اسی سے زائد زخمی
20 اپریل 2018
غزہ کی سرحد پر مسلسل چوتھے جمعے کو بھی اسرائیل مخالف مظاہرے کیے گیے ہیں، جن میں ہزاروں فلسطینیوں نے شرکت کی ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے مزید دو فلسطینی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
اشتہار
غزہ سرحد کے قریب فلسطینیوں کے احتجاج کا یہ مسلسل چوتھا ہفتہ ہے۔ اس مرتبہ بھی فلسطینیوں کی طرف سے احتجاج کے طور پر ٹائروں کو آگ لگائی گئی جبکہ کچھ فلسطینیوں نے پتنگوں کی دم کے ساتھ پٹرول والے جلتے ہوئے کپڑے باندھ کر انہیں سرحد کی طرف بھیجنے کی کوشش کی۔ عینی شاہدین کے مطابق کالے دھوئیں کے بڑے بڑے بادل اٹھتے ہوئے دیکھے جا سکتے تھے جبکہ اسرائیلی فورسز نے آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا استعمال کیا۔
غزہ میں وزارت صحت نے کہا ہے کہ ان مظاہروں میں شامل تراسی افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ احتجاجی مظاہرے غزہ میں برسر اقتدار حماس کی طرف سے منظم کیے گئے ہیں جبکہ پندرہ مئی کو اس سے بھی بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں کے مظاہروں کے دوران بھی کم از کم چونتیس فلسطینی ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔
حماس کے مطابق ان مظاہروں کا مقصد غزہ کی ناکہ بندی کو ختم کرنا ہے۔ حماس نے پارلیمانی انتخابات جیتنے کے بعد سن 2007 میں غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور اس کے بعد سے اسرائیل اور مصر نے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی مہاجرین کو ’واپسی کا حق‘ دیا جائے اور انہی علاقوں میں بسایا جائے، جو اب اسرائیل کے زیر کنٹرول ہیں۔
سن 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد لاکھوں فلسطینی یا تو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے یا پھر انہیں زبردستی ان کے گھروں سے نکال دیا گیا تھا۔ پندرہ مئی کو اسرائیل کے قیام کی سالگرہ منائی جاتی ہے جبکہ فلسطینی اسے نکبہ (آفت) قرار دیتے ہیں۔
ایک اکیس سالہ فلسطینی لڑکے احمد نثمان کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم یہاں تب تک موجود رہیں گے، جب تک ہمیں ہماری زمین نہیں مل جاتی۔‘‘ یہ لڑکا وہ پتنگ تیار کر رہا تھا، جس کی دم کے ساتھ جلتے ہوئے پٹرول والے کپڑے باندھ کر اسے اسرائیلی فوجیوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس لڑکے کا مزید کہنا تھا، ’’ہم مزاحمت کے نئے طریقوں کے ساتھ ہر روز یہاں آئیں گے۔‘‘
قبل ازیں جمعے کے روز ہی اسرائیلی فوج نے جہاز کے ذریعے ایسے پمفلٹ گرائے تھے، جن پر فلسطینیوں کو سرحد سے دور رہنے کی ہدایات لکھی ہوئی تھیں۔ فلسطینیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ سرحد کے قریب آ کر اور حماس کی ہدایات پر عمل کر کے اپنے زندگیاں خطرے میں نہ ڈالیں۔ نہتے فلسطینوں پر گولیاں چلانے کی وجہ سے اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا بھی سامنا ہے۔
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔