’اسرائیلی فائرنگ سے وحشت انگیز ہلاکتوں کا خاتمہ کیا جائے‘
14 مئی 2018
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر نے اسرائیلی فورسز کی براہ راست فائرنگ سے درجنوں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے سلسلے کو فوری طور پر روکنے اور ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے ایک ٹوئٹر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے، ’’اسرائیلی فورسز کی براہ راست فائرنگ سے درجنوں افراد کی وحشت ناک ہلاکت اور سینکڑوں کو زخمی کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’زندہ رہنے کے حق کی عزت کی جائے۔ انسانی حقوق کی غیر معمولی خلاف ورزیاں کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ بین الاقوامی برادری متاثرین کے لیے انصاف کو یقینی بنائے۔‘‘
فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی فورسز کی تازہ کارروائیوں کو ’قتل عام‘ قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے مشرق وسطیٰ امن عمل میں امریکا کی ثالثی کو بھی مسترد کیا ہے۔ دریں اثناء ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کو انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل میں امریکا بھی اسرائیل کے ساتھ شامل ہے۔
سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کویت نے کہا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ میں کویت کے سفیر کا کہنا تھا، ’’ہم غزہ میں ہلاکتوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کونسل کیا کرتی ہے۔ کل یا پرسوں ہم ایک ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔‘‘
غزہ میں طبی ذرائع کے مطابق اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 50 سے زائد ہوچکی ہے جبکہ بارہ سو سے زائد افراد زخمی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں متعدد بچے بھی شامل ہیں۔
غزہ میں پرتشدد جھڑپوں کے بعد برطانیہ نے فریقین سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔ جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہم غزہ میں تشدد اور زندگیوں کے نقصان کی اطلاعات سے متعلق فکرمند ہیں۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے پرعزم ہیں۔ تاہم انہوں نے امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے بعد ہونے والے احتجاج اور ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کا بالکل ذکر ہی نہیں کیا۔
فرانس کی وزارت خارجہ نے فریقین سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ کسی نئے پرتشدد تنازعے سے بچا جا سکے۔ فرانس نے اسرائیل سے دوبارہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’طاقت کے استعمال میں احتیاط سے کام لے ۔‘‘ اس بیان میں عام شہریوں خاص طور پر بچوں کی حفاظت اور ان کے احتجاج کرنے کے حق کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ فرانس نے امریکا کی طرف سے سفارتخانے کی یروشلم منتقلی کو بھی مسترد کیا ہے۔
یورپی یونین نے اسرائیل کی طرف سے نہتے شہریوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو پرامن احتجاج کے حق کا احترام کرنا ہوگا۔ جرمن وزارت خارجہ نے بھی اسی طرح کا بیان جاری کیا ہے۔
عرب لیگ نے امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کی خوشی منانے والے ممالک کو ’شرمناک‘ قرار دیا ہے۔ عرب لیگ کے مطابق یہ بین الاقوامی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔ دریں اثناء فرانس اور اردن نے بھی اس امریکی اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ دوسری جانب چیک جمہوریہ، ہنگری اور رومانیہ نے یورپی یونین کے اس مذمتی بیان کو بلاک کر دیا ہے، جس میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ا ا / ع ا (روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔