1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی، فلسطینی امن بات چیت بحال

شادی خان سیف30 جولائی 2013

فلسطینی اعلیٰ مذاکرات کار صائب عریقات اور ان کی اسرائیلی ہم منصب زیپی لیونی نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ہمراہ مشترکہ عشائیے میں شرکت کر کے تعطل کے شکار مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کا دوبارہ آغاز کر دیا ہے۔

واشنگٹن کے دفتر ‌خارجہ کے تھامس جیفرسن روم میں اسرائیلی اور فلسطینی نمائندوں کی میزبانی کے فرائض انجام دینے والے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے فریقین پر زور دیا کہ انہیں امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق زیپی لیونی اور صائب عریقات نے جان کیری کے ساتھ مل کر ایک ’افطار‘ ڈنر میں حصہ لیا۔ جان کیری نے اس عشائیے کو ’بہت، بہت خاص‘ قرار دیا۔ جان کیری وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ کے لیے قیام امن کی کوششوں کے حوالے سے خاصے سرگرم رہے ہیں۔ مشترکہ عشائیے سے قبل وہ فریقین سے علیٰحدہ علیٰحدہ بھی ملے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

ذرائع کے مطابق اسرائیلی اور فلسطینی اپنی اپنی مبینہ ’حتمی حیثیت‘ کے حوالے سے خاصے منقسم ہیں۔ اس میں یروشلم کے مستقبل کا مسئلہ، جسے دونوں اپنا اپنا دارالحکومت قرار دیتے ہیں، فلسطینی مہاجرین کے لیے واپسی کا حق، مستقبل کی فلسطینی ریاست کی سرحدوں کا تعین اور ان درجنوں یہودی بستیوں کا مستقبل سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں جو مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں بسائی گئی ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق جان کیری آج منگل کے روز ایک سہ فریقی مذاکراتی نشست کی میزبانی بھی کریں گے جس کے بعد مقامی وقت کے مطابق قریب گیارہ بجے قبل از دوپہر وہ فلسطینی اور اسرائیلی نمائندوں کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو بھی کریں گے۔

جان کیری کی معاونت کے لیے تجربہ کار امریکی سفارتکار مارٹن انڈِک Martin Indyk، جنہیں ان مذاکرات کے حوالے سے اعلیٰ امریکی مندوب کے طور پر نامزد کیا جا چکا ہے، اور فِل گورڈن بھی موجود تھے، جو مشرق وسطیٰ کے لیے وائٹ ہاؤس کے خصوصی نمائندے ہیں۔ یاد رہے کہ 62 سالہ مارٹن انڈِک دو مرتبہ اسرائیل میں امریکا کے سفیر رہ چکے ہیں۔ وہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں سال 2000ء کی ناکام رہنے والی کیمپ ڈیوڈ سمٹ کے سلسلے میں بھی بہت فعال رہے تھے۔ اس امریکی سفارت کار کے بقول انہیں کامل یقین ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن ممکن ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے مذاکرات کی بحالی کو ایک امید افزا قدم قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ فریقین کو ’کٹھن انتخاب‘ کرنا ہوں گے۔ ’’ان مذاکرات میں سب سے مشکل کام ابھی آگے آئے گا اور میں پرامید ہوں کہ اسرائیلی اور فلسطینی ان مذاکرات کی جانب نیک نیتی سے بڑھیں گے۔‘‘ انہوں نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ امریکا اس ضمن میں مدد دینے کے لیے تیار ہے، ’’یہ دو ریاستوں کے قیام کا ہدف حاصل کر لیں جو امن و سلامتی کے ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہیں۔‘‘

تصویر: Reuters

امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی خبردار کر چکے ہیں، ’’ہم سخت، پیچیدہ، جذباتی اور علامتی مسائل پر معقول سمجھوتوں کی کوشش میں ہیں، اس لیے ان مذاکرات کاروں اور لیڈران کی راہ میں بہت سے مشکل مرحلے اور کٹھن فیصلے آئیں گے۔‘‘ امریکی دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کے فریقین کم از کم نو ماہ تک مذاکرات جاری رکھنے پر متفق ہیں۔

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی خاتون ترجمان کے بقول حتمی امن معاہدے کے حصول کے لیے مسلسل کوششیں کی جائیں گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں