اسرائیلی فوجی سربراہان کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ خارج
29 جنوری 2020
ہالینڈ کی ایک عدالت نے اسرائیلی فوجی سربراہان کے خلاف دائر کردہ جنگی جرائم کا ایک مقدمہ خارج کر دیا ہے۔ مدعی ایک فلسطینی نژاد ڈچ شہری ہے، جس کے خاندان کے چھ ارکان غزہ میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔
اشتہار
عدالت کے ججوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ مقدمہ جن اسرائیلی فوجی کمانڈروں کے خلاف دائر کیا گیا تھا، ان کو اپنے خلاف عدالتی کارروائیوں سے ان کے فرائض کی نوعیت اور فرائض کی انجام دہی کے باعث 'فنکشنل‘ مامونیت یا قانونی تحفظ حاصل ہے۔
ساتھ ہی اس عدالت نے یہ بھی کہا کہ اسے مختلف مقدمات کی سماعت کے لیے اپنے قانونی دائرہ کار کی رو سے بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اسرائیلی فوج کے سابق یا موجودہ کمانڈروں کے خلاف مقدمات کی سماعت کر سکے۔
یہ مقدمہ ہالینڈ کے شہر دی ہیگ کی ایک مقامی عدالت میں دائر کیا گیا تھا۔ عدالت کی سربراہ لاریسا ایلوِن نے کہا کہ اپنے دائرہ اختیار کے علاوہ یہ عدالت اس وجہ سے بھی اس مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتی تھی کہ اسرائیلی فوجی کمانڈروں کو، جن میں فوج کے سابق سربراہ اور موجودہ سیاستدان بینی گینٹس بھی شامل ہیں، ان کے سرکاری فرائض کی وجہ سے اپنے خلاف عدالتی کارروائیوں سے تحفظ حاصل ہے۔
عدالتی سربراہ لاریسا ایلوِن نے اپنے فیصلے میں لکھا، ''اس مقدمے میں کوئی ڈچ عدالت کسی بھی قسم کا فیصلہ سنانے کی مجاز نہیں ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر مقدمہ دیوانی کے بجائے فوجداری نوعیت کا ہوتا، تو متعلقہ عدالت اس کی سماعت کر بھی سکتی تھی۔ تاہم ایسا اس لیے نہیں ہو سکتا تھا کہ اس واقعے میں اسرائیلی فوجی کمانڈروں کو قانونی مامونیت حاصل ہے یا رہی ہے۔
دی ہیگ کی اس عدالت نے یہ فیصلہ آج بدھ انتیس جنوری کو سنایا۔ اس مقدمے میں درخواست دہندہ فلسطینی نژاد ڈچ شہری نے اپنے خاندان کے چھ افراد کی غزہ میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاکت کی وجہ سے زر تلافی کا مطالبہ کیا تھا۔
غزہ میں چھ سال پہلے کا اسرائیلی فضائی حملہ
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ مقدمہ اسماعیل نامی جس فلسطینی نژاد ڈچ شہری نے دائر کیا تھا، اس کے اہل خانہ میں سے چھ افراد اس وقت مارے گئے تھے، جب 2014ء میں اسرائیلی فوج نے غزہ میں ان کے گھر پر ایک فضائی حملہ کیا تھا۔ اپنی قانونی درخواست میں مدعی نے اس دور کے اسرائیلی فوجی سربراہ بینی گینٹس کے علاوہ اس دور کے اسرائیلی ایئر فورس کمانڈر عامر ایشل سے بھی ہرجانے کا مطالبہ کیا تھا۔
فلسطینی تنظیم حماس کے زیر انتظام غزہ پٹی میں عسکریت پسندوں اور اسرائیلی فوج کے مابین 2014ء کی جنگ میں تقریباﹰ 2200 فلسطینی مارے گئے تھے، جن میں سے 1500 تک ہلاک شدگان عام فلسطینی شہری تھے۔
م م / ا ا (روئٹرز، اے پی)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔