اسرائیل: ایران پر حملہ کرنے کے نئے منصوبوں کی تیاری کا حکم
28 جنوری 2021
اسرائیلی فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہودی مملکت نے ایران کے خلاف اپنی کارروائیوں کے لیے فوج کو تیاری کا حکم دے دیا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ تہران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے میں امریکا کی واپسی واشنگٹن کی ’غلطی‘ ہوگی۔
اشتہار
اسرائیلی فوج کے سربراہ کا یہ بیان امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے بظاہر یہ اشارہ ہے کہ وہ ایران کے ساتھ کسی بھی طرح کے سفارتی روابط شروع کرنے میں احتیاط سے کام لیں۔ امریکی پالیسی سازی کے بارے میں اسرائیل کے کسی فوجی سربراہ کی جانب سے اس طرح کے بیانات شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ لفٹننٹ جنرل ایویو کوہاوی نے تل ابیب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز سے خطاب کرتے ہوئے کہا”سن 2015 کے جوہری معاہدے میں واپسی یا حتی کہ متعدد ترامیم کے ساتھ اسی طرح کا کوئی دوسرا معاہدہ، آپریشنل اور اسٹریٹیجک نقطہ نظر سے غلط اور برا ہوگا۔"
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کو منسوخ کر دیا تھا اور تہران پر متعدد اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ اسرائیل نے 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ کے معاہدے سے دستبرداری کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔
نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ لیکن اسرائیل نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے میں ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنے کے لیے خاطر خواہ حفاظتی اقدامات شامل نہیں ہیں۔
امریکا کے نئے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ امریکا کو ابھی یہ فیصلہ کرنے میں دیر لگے گا کہ وہ معاہدے میں شامل ہوتا ہے یا نہیں اور اس سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہوگی کہ ایران معاہدے کی حقیقتاً کتنی پاسدار ی کر رہا ہے۔
’ایران سے خطرہ‘، اسرائیل نے میزائل دفاعی نظام فعال کر دیا
01:06
امریکا کے جوہری معاہدے سے الگ ہوجانے کے بعد سے ایران پر معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ تہران پر الزام ہے کہ اس نے کم افزودہ یورینیم کا بہت بڑا ذخیرہ کر لیا ہے، یورینیم کو زیادہ بہتر اور معیاری طور افزودہ کر رہا ہے اور سینٹری فیوز نصب کر رہا ہے۔
لفٹننٹ جنرل کوہاوی کا کہنا تھا کہ ایران کے ان اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کی سمت میں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
جنرل کوہاوی نے کہا کہ امریکا جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے تہران پر جس قدر بھی پابندی عائد کردے لیکن انہوں نے ایران پر ممکنہ حملے کی تیاری کا حکم دے دیا ہے۔ ”اپنے ابتدائی تجزیے کی روشنی میں میں نے اسرائیلی ڈیفینس فورسز کو حملے کے لیے متعدد منصوبوں کی تیاری کا حکم دیا ہے۔ یہ ان کے علاوہ ہیں جن پر پہلے سے ہی عمل درآمد ہو رہا ہے۔"
اسرائیلی فوج کے سربراہ کا کہنا تھا ”یہ درست ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد کا فیصلہ سیاسی قیادت کر ے گی لیکن ہمیں ایسے منصوبوں کو تیار رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم ان منصوبوں کو تیار کر رہے ہیں اور آنے والے برسوں میں یہ تیار ہوجائیں گے۔"
دریں اثنا ایران نے اپنی فوجی مشقوں میں اضافہ کر دیا ہے جس میں خلیج عمان میں رواں ماہ بحری مشق کے ایک حصے کے طور پر کروز میزائل فائر کرنا شامل ہے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔