1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

اسرائیلی فوج کا غزہ میں اسکول پر حملہ، کم ازکم دس افراد ہلاک

20 اگست 2024

غزہ میں حماس کے زیر انتظام محکمہ سول دفاع کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والے اسکول میں بے گھر افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ملکی فضائیہ نے حماس کے ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کو نشانہ بنایا۔

وسطی غزہ میں ہی دس اگست کو ایک اسکول پر اسرائیلی حملے میں اسی افراد مارے گئے تھے
وسطی غزہ میں ہی دس اگست کو ایک اسکول پر اسرائیلی حملے میں اسی افراد مارے گئے تھےتصویر: Omar Al-Qattaa/AFP/Getty Images

وسطی غزہ  میں اسرائیلی فوج کے ایک اسکول پر حملے میں کم ازکم دس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ غزہ میں حماس کے زیر انتظام محکمہ شہری دفاع کے مطابق مارے جانے والے افراد کا تعلق ان بے گھر  خاندانوں سے تھا، جو اس اسرائیلی حملے کا نشانہ بننے والے اسکول میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ اسرائیلی فوج نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے آج منگل کے روز بتایا کہ ملکی فضائیہ نے حماس کے عسکریت پسندوں پر حملہ کیا، جو غزہ شہر کے ایک اسکول کے احاطے میں اپنا ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر چلا رہے تھے۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''شہریوں کو نقصان پہنچانے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اپنے ہدف کو درستی کے ساتھ نشانہ بنانے والے گولہ بارود کے استعمال سمیت متعدد اقدامات کیے گئے تھے۔‘‘

حماس ان اسرائیلی الزامات کی تردید کرتی  ہے کہ وہ غزہ میں اسکولوں اور ہسپتالوں کو اپنے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔

غزہ میں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کے اہل خانہ نیتن یاہو حکومت پر ان کی رہائی کے لیے مسلسل دباؤ بڑھاتے آئے ہیںتصویر: Mostafa Alkharouf/Anadolu/picture alliance

اسرائیلی فوج نے مزید چھ یرغمالیوں کی لاشیں بر آمد کر لیں

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ملکی داخلی سلامتی کے ادارے شن بیت کے ساتھ ایک مشترکہ آپریشن کے دوران غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس سے چھ اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں برآمد کر لی ہیں۔ فوج نے آج منگل کے روز خان یونس میں کیے گئے اس آپریشن کی تفصیلات بتائے بغیر ایک بیان میں کہا کہ انٹیلی جنس اور فرانزک تجزیے کے بعد ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کے اہل خانہ کو مطلع کر دیا گیا ہے۔

یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے، جب  امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اسرائیل کے دورے کے بعد غزہ میں جنگ بندی کے سلسلے میں مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے آج ہی مصر پہنچے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے جن یرغمالیوں کی لاشیں برآمد کی ہیں، ان میں یاگیو بوشتاب، الیگزینڈر ڈینسیگ، یورم میٹزگر، نداو پوپل ویل، چیم پیری کے ہلاک ہونے کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا تھا البتہ ایک یرغمالی ابراہم موندر کی ہلاکت کا اعلان منگل کے روز کیا گیا۔ ان یرغمالیوں میں سے چار کا تعلق جنوبی اسرائیل میں رہائش پذیر نیر اورز کیبوٹز نامی کمیونٹی سے تھا، جو سات اکتوبر کو حماس کے دہشت گردانہ حملے سے شدید متاثر ہوئی تھی۔

یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ پر مشتمل فورم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ لاشوں کی بازیابی '' اہل خانہ کے انتظار کو ختم  اور قتل ہونے والوں کو ابدی آرام فراہم کرتی ہے۔‘‘ اس فورم نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ بقیہ یرغمالیوں کو مذاکرات کے ذریعے زندہ اسرائیل واپس لایا جائے۔  اس حوالے سے اس فورم کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''اسرائیلی حکومت، ثالثوں کی مدد سے، فی الحال میز پر موجود معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے اپنے اختیار میں ہر ممکن کوشش کرے۔‘‘

جنوبی غزہ میں خان یونس کا شہر گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل اسرائیلی فوج کے حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہےتصویر: Bashar Taleb /AFP

غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کے لیے ثالثی کرنے والے ممالک مصر، قطر اور امریکہ اسرائیل اور حماس دونوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کریں، جس سے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں باقی اسرائیلی یر غمالیوں کی رہائی میں مدد ملے گی۔

اسرائیل کے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر کو حماس کے دہشت گردانہ حملے کے نتیجے میں اسرائیل میں 1,199 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اسی دن یرغمال بنائے گئے 251 افراد میں سے 105 اب بھی غزہ کی پٹی میں یرغمال بنا کر رکھے گئے ہیں، جن میں سے 34 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب حماس کے زیر انتظام  وزارت صحت کے مطابق غزہ میں گزشتہ دس ماہ سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک 40,173 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق غزہ میں مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔

ش ر ⁄ ا ا ، م م (روئٹرز، اے ایف پی)

غزہ میں جنگ بندی، نیتن یاہو پر بڑھتا دباؤ

01:33

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں