اسرائیلی فوج کے ساتھ تصادم میں فلسطینی وزیر ہلاک
11 دسمبر 2014وزیر کی ہلاکت پر فلسطینیوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں تاہم بدھ کو مغربی کنارے پر ہونے والے مظاہرے کی ان تصویروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، جن میں ایک اسرائیلی آفیسر پچپن سالہ فلسطینی وزیر زیاد ابو عین کو گلے سے پکڑے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ابو عین زمین پر گر گئے۔
اسرائیلی وزیر دفاع موشے یالون کا کہنا ہے کہ ان کی فوج فلسطینی حکام کے ساتھ مل کر اس واقعے کی تفتیش کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ابو عین کے پوسٹ مارٹم کی کارروائی میں فلسطینی اور اردن کے ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ ایک اسرائیلی ڈاکٹر بھی شامل ہے۔
امریکا نے اس واقعے کی ’تیز تر اور صاف و شفاف‘ تفتیش پر زور دیا ہے۔ محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے ایک بیان میں کہا ہے: ’’اس مشکل گھڑی میں، ہم فریقین پر بدستور اس بات کے لیے زور دیں گے کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لیے اور تشدد میں اضافے سے بچنے کے لیے کام کریں۔‘‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور فیڈریکا موگیرینی نے فریقین پر زور دیا ہے کہ برداشت کا مظاہرہ کریں۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ابو عین کی موت کی وجہ کا تعین پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنے کے بعد ہی ہو سکے گا۔ تاہم فلسطینی صدر محمود عباس نے انہیں ’واضح جرم‘ اور ’ظالمانہ کارروائی‘ کا نشانہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے وزیر کی ہلاکت پر تین روزہ سوگ کا اعلان بھی کیا ہے۔ ابو عین کے کاموں میں اسرائیلی آباد کاری منصوبوں اور مغربی کنارے کو الگ کرنے والی رکاوٹوں کے خلاف مظاہروں کا انعقاد شامل تھا۔
اس واقعے سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے۔ فلسطینی محمود عباس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون معطل کر دیں۔
فلسطینی صدر نے بدھ کو رات گئے اپنی فتح تحریک اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے اہلکاروں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ابو عین کی ہلاکت کے ردِ عمل پر غور کیا گیا۔ شرکا کا کہنا ہے کہ تمام راستے کھلے ہیں۔
اس نشست میں محمود عباس وہ تصویر اٹھائے ہوئے تھے جس میں ابو عین کو ایک اسرائیلی آفیسر نے گردن سے پکڑ رکھا تھا۔ فلسطینیوں نے یہ تصویر انٹرنیٹ پر ہیش ٹیگ #ICantBreathe سے جاری کی ہے۔