1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

اسرائیلی فوج کے شمالی غزہ میں جاری آپریشن میں مزید وسعت

7 نومبر 2024

آئی ڈی ایف کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بدھ کے روز حماس کے پچاس جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا گیا۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کی بمباری سے لبنان کے واحد بین الاقوامی ائیر پورٹ کے متاثر ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

فلسطینی ذرائع نے تباہ شدہ علاقے میں شہری ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے اور وہاں انسانی صورتحال کو تباہ کن قرار دیا ہے
فلسطینی ذرائع نے تباہ شدہ علاقے میں شہری ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے اور وہاں انسانی صورتحال کو تباہ کن قرار دیا ہے تصویر: AFP

اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے غزہ پٹی کے شمال میں حماس کے خلاف اپنی جاری فوجی کارروائیوں میں مزید وسعت لانے کا اعلان کیا ہے۔ آئی ڈی ایف نے آج بروز جمعرات کہا، ''آئی ڈی ایف کے دستوں نے بیت لاہیہ کے علاقے میں دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف کام کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘

اس بیان میں مزید کہاگیا، ''اس کے ساتھ ہی آئی ڈی ایف کے دستے جبالیہ کے علاقے میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور گزشتہ روز تقریباً 50 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔‘‘ بیت لاہیہ نامی شہر غزہ پٹی کے انتہائی شمال میں واقع ہے جبکہ جبالیہ کا پناہ گزین کیمپ اس کے بالکل جنوب میں واقع ہے۔ فلسطینی ذرائع نے تباہ شدہ علاقے میں شہری ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے اور وہاں انسانی صورتحال کو تباہ کن قرار دیا ہے۔

اسرائیلی افواج بارہا شمالی غزہ کے رہائشیوں کو انخلا کے احکامات جاری کرتی آئی ہےتصویر: Stringer/REUTERS

آئی ڈی ایف نے مقامی آبادی سے یہ علاقہ خالی کر دینے کا مطالبہ کیا ہے لیکن رہائشیوں کے مطابق بہت سے لوگ وہاں سے جانے سے انکار کر رہے ہیں کیونکہ وہ غزہ پٹی کے دیگر حصوں کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور جنگی زون سے نکلنے کے لیے وہاں سے گزرنے والے خطرناک راستے سے خوفزدہ ہیں۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس کے فوجیوں نے مصر کے ساتھ سرحد پر رفح کے ارد گرد کے علاقے میں ''متعدد مسلح دہشت گردوں اور دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے‘‘ کو ختم کر دیا۔ اسرائیلی فوج بار بار ان علاقوں میں واپس جا رہی ہے، جو اس نے پہلے خالی کر دیے تھے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کارروائیوں میں حماس کے سیلز کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسرائیل نے اکتوبر 2023 میں جنوبی اسرائیل میں حماس کے جنگجوؤں کے دہشت گردانہ حملے میں بارہ سو افراد کی ہلاکت کے بعد غزہ کی ساحلی پٹی میں اپنی فوجی مہم  شروع کی تھی۔

اس مہم میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک 43  ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔

بیروت کا ہوائی اڈہ معمول کے مطابق کام کر رہا ہے، وزیر ٹرانسپورٹ

 لبنان کے وزیر ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ ملک کا واحد بین الاقوامی ہوائی اڈہ معمول کے مطابق کام کر رہا ہے۔ ان کا یہ بیان دارالحکومت بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں اور ہوائی اڈے کے قریب اسرائیلی حملوں کے بعد سامنے آیا ہے۔

لبنانی وزیر علی حمیہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ بیروت ایئر پورٹ سے مسافر طیارے بغیر کسی مسئلے کے ٹیک آف اور لینڈنگ کر رہے ہیں۔ جائے وقوعہ پر موجود اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر کے مطابق، ہوائی اڈے کی دیوار کے ساتھ ہیٹر بنانے کی ایک فیکٹری کو اسرائیلی حملے میں بری طرح نقصان پہنچا۔ اسرائیل ستمبر کے اواخر سے لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف جنگ ​​میں مصروف ہے۔

جنوبی بیروت کے مضافات میں اسرائیلی حملے کے بعد آگ کے شعلے فضا میں بلند ہوتے ہوئےتصویر: IBRAHIM AMRO/AFP

بیروت کے ہوائی اڈے کے قریب یہ نیا حملہ حزب اللہ کی جانب سے بدھ کے روز اس اعلان کے بعد کیا گیا کہ اس نے اسرائیل کے مرکزی بین گوریان ہوائی اڈے کے قریب ایک اسرائیلی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا ہے۔

بیروت ایئر پورٹ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ بدھ کو رات بھر جاری رہنے والے اسرائیلی حملوں سے کچھ عمارتوں کو معمولی نقصان پہنچا لیکن ٹرمینل کی عمارت کے اندر کوئی نقصان نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حملے کی وجہ سے لبنان کی قومی فضائی کمپنی مڈل ایسٹ ایئرلائنز کے ذیلی ادارے کی دیکھ بھال کی عمارت متاثر ہوئی ہے۔ یہ عملی طور پر وہ واحد ایئر لائن ہے جو اب بھی وہاں سے اپنی پروازیں جاری رکھے ہوئے ہے۔

اسرائیلی فوج نے اس سے قبل جنوبی بیروت کے چار محلوں کے رہائشیوں کے لیے انخلا کا حکم جاری کیا تھا، جس میں ہوائی اڈے کے قریب ایک جگہ بھی شامل تھی۔

وزیر صحت فراس ابیض کے مطابق 23 ستمبر سے لبنان پر جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک 2,600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ش ر ⁄ م م، ر ب (ڈی اپی اے، اے ایف پی)

اسرائیل اور غزہ پر ٹرمپ اور ہیرس کا موقف کیا ہے؟

01:37

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں