اسرائیل کی پولیس نے جمعہ دو مارچ کو ملکی وزیراعظم سے کرپشن الزامات کے تحت چھان بین کی ہے۔ تازہ پوچھ گچھ ٹیلی کام سیکٹر میں اُن کی مداخلت سے متعلق ہے۔
اشتہار
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور اُن کی اہلیہ کو کرپشن کے بعض الزامات کا سامنا ہے۔ ان الزامات کے تحت اسرائیلی پولیس نے دفتر استغاثہ کو تجویز کیا ہے کہ وزیراعظم بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ہیں اور اُن کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کی جائے۔
جمعہ دو مارچ کو پولیس کی چھان بین کا تعلق نیتن یاہو کی ملکی ٹیلی کام سیکٹر کے بعض معاملات میں مداخلت کے حوالے سے تھا۔ کرپشن الزامات کے حوالے سے نیتن یاہو کو غیرسرکاری تنظیموں کے ہفتہ وار مظاہروں کا بھی سامنا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق کرپشن الزامات اور پولیس انکوائری سے نیتن یاہو کے اگلے ہفتے کے دوران شروع ہونے والے امریکی دورے پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور انہیں امریکا میں میڈیا کے تلخ سوالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ وہ پانچ مارچ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کرنے والے ہیں۔
بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ اُن کی بیوی سارہ کو بھی پولیس کے تفتیشی عمل کا سامنا ہے۔ اسی تفتیشی سلسلے کے دوران وزیراعظم کے انتہائی دو قریبی ساتھیوں کو پولیس نے حراست میں بھی لے لیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ اُنہوں نے نے بڑی ٹیلی کام کمپنی بیزک کو خلافِ ضابطہ لاکھوں ڈالر کا بزنس دیا ہے تا کہ نیتن یاہو کی تشہیر مثبت انداز میں کی جا سکے۔ نیتن یاہو گزشتہ برس تک ملکی ٹیلی کام کی وزارت بھی سنبھالے ہوئے تھے۔
اسرائیلی پولیس کے مطابق ملکی وزیراعظم نے اپنے منصب کے منافی تین لاکھ ڈالر کے مساوی تحائف وصول کیے تھے۔ انہیں یہ تحائف آسٹریلیا کی ارب پتی کاروباری شخصیت جیمز پیکر نے دیے تھے۔ یاد رہے کہ جیمز پیکر کے والد کیری پیکر نے بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی سیریز شروع کر کے انقلاب پیدا کر دیا تھا۔
پیکر کے تحائف کے بدلے میں نیتن یاہو نے انہیں امریکی ویزا معاملات، ٹیکس میں مراعات اور ایک بھارتی کاروباری شخصیت سے رابطہ کروایا تھا۔ پولیس نے جو دوسرا مقدمہ شروع کرنے کی سفارش کی ہے، اس میں نیتن یاہو کا اپنے حامی اخبار کو اُن کی زیادہ تشہیر کے سلسلے میں تعاون اور اخبار کے حریف ادارے کو نظرانداز کرنا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم تاہم ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔