اسرائیلی وزیراعظم کی پالیسیوں پر نتالی پورٹمین کا احتجاج
21 اپریل 2018
ہالی ووڈ اداکارہ نتالی پورٹمین نے دو ملین ڈالر کا ایوارڈ وصول کرنے کی تقریب کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ یہ تقریب یروشلم میں منعقد کی جا رہی تھی اور اس میں بینجمن نیتن یاہو نے کلیدی خطاب کرنا تھا۔
اشتہار
اس ایوارڈ کی تقریب کا بائیکاٹ کرتے ہوئے معروف اداکارہ نتالی پورٹمین کا کہنا ہے کہ تقریب میں اسرائیلی وزیراعظم بیجمن نیتن یاہو کی تقریر بھی شامل ہے اور وہ ایوارڈ وصول کر کے نیتن یاہو کی پالیسیوں کی توثیق نہیں کرنا چاہتیں۔ پورٹمین نے بائیکاٹ کے حوالے سے بیان جمعہ بیس اپریل کی شام میں جاری کیا۔
امریکی اداکارہ نے اسرائیل کی وزیر ثقافت میری راگیو کے اُس بیان کی بھی تردید کی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ ایوارڈ کی تقریب کا بائیکاٹ کر کے پورٹمین نے اُن پالیسیوں کی حمایت کی ہے جو اسرائیل مخالف اور بی ڈی ایس تحریک کا حصہ ہیں۔ بی ڈی ایس موومنٹ ایک عالمی تحریک ہے جو آزادی، انصاف اور مساوات کا پرچار کرتی ہے۔
پورٹمین نے اپنے تردیدی بیان میں واضح کیا کہ وہ کسی بھی صورت میں بی ڈی ایس تحریک کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی اُس کی پالیسیوں کی توثیق یا حمایت کرتی ہیں۔
نتالی پورٹمین نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ دنیا اور اسرائیل میں آبادی اُن یہودیوں کے ساتھ ہیں، جو اس وقت اسرائیل میں موجود قیادت یا لیڈرشپ کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں کرتیں اور اُن کی پالیسیوں پر برہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ اسرائیل کے بائیکاٹ کی حمایت یا ایسا کرنے کے حامی نہیں ہیں۔
نتالی پورٹمین کو دو ملین ڈالر کی مالیت کا حامل جینیسس پرائز دیا جانا تھا۔ یہ ایسے افراد کو دیا جاتا ہے جو انفرادی سطح پر یہودی مہاجرین کی آبادکاری یا یہودی مقاصد کے فروغ میں سرگرم ہوتے ہیں۔ اس انعام کے حقدار کا اعلان جینیسس فاؤنڈیشن کرتی ہے اور اسے ’جیو نوبل پرائز‘ بھی تصور کیا جاتا ہے۔
اس پرائز کی بنیاد سن 2012 میں رکھی گئی تھی۔ انعام حاصل کرنے والوں میں اداکار مائیکل ڈگلس، کاروباری شخصیت مائیکل بلُوم برگ اور اسکلپچر انیش کپور شامل ہیں۔ انیش کپور بھارتی نژاد برطانوی مصور ہیں اور انہیں یہ ایوارڈ یہودی اقدار کے فروغ کے سلسلے میں کی جانے والی خدمات کے اعتراف میں دیا گیا تھا۔
مذہبی خواتین اپنا سر کیسے ڈھانپتی ہیں؟
اسلام، مسیحیت یا یہودیت، ان تمام مذاہب میں خواتین کسی نہ کسی طریقے سے پردے کی غرض سے اپنے سر کو ڈھانپتی ہیں۔ ان مذاہب میں اس طرح کے پردے میں کیا مماثلتیں ہیں اور یہ خواتین ان مذہبی پابندیوں کو کیسے دیکھتی ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پردے کے پیچھے
’’ایسی مسلم خواتین، جو ہیڈ اسکارف پہنتی ہیں، وہ اپنے مذہبی عقائد کے باعث کٹھ پتلیاں نہیں ہیں‘‘، یہ کہنا ہے ترک ویڈیو آرٹسٹ نیلبار گیریش کا۔ سن دو ہزار چھ کی Undressing نامی اس پرفارمنس میں گیریش دکھاتی ہیں کہ ایک خاتون ایک کے بعد دوسرا پردہ اتارتی ہے اور ساتھ ہی اپنی فیملی کی مختلف خواتین کے نام بڑبڑاتی ہے۔ انہوں نے یہ پراجیکٹ نائن الیون کے بعد مغرب میں اسلاموفوبیا میں اضافے کے ردعمل میں کیا تھا۔
تصویر: Nilbar Güres
جعلی بال
آنا شیتن شلیگر کا Covered نامی سیلف پورٹریٹ 2009ء میں منظر عام پر آیا، جس میں وہ دو مختلف وِگز پہنے ہوئی ہیں۔ کسی زمانے میں یہودی مذہبی خواتین اس طرح کی وگ کا استعمال کرتی تھیں۔ سترہویں صدی کے اختتام سے ان خواتین نے اپنے بالوں کے پردے کے لیے tichel نامی ایک خاص قسم کا اسکارف پہننا شروع کیا۔ کبھی ایسی وگز بھی فیشن میں رہیں، جو آرتھوڈوکس یہودی خواتین کے scheitel نامی حجاب کا ایک بہترین متبادل تھیں۔
تصویر: Anna Shteynshleyger
ایک عقیدہ، مختلف مذاہب
مسلم خواتین مختلف قسم کے اسکارف یا حجاب لیتی ہیں۔ لیکن ان سب کا مطلب کیا ہے؟ مخصوص قسم کا ہیڈ اسکارف دراصل ایک خاص مذہبی عقیدے اور ثقافتی پس منظر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ کٹر نظریات کے حامل مسلمانوں میں ہیڈ اسکارف کو ایک اہم مذہبی جزو قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Jüdisches Museum Berlin/Yves Sucksdorff
مذہبی اجتماعات میں سر کا پردہ
فوٹو گرافر ماریہ میہائلوف نے برلن میں روسی آرتھوڈوکس کلیسا میں ہونے والی عبادات کو عکس بند کیا ہے۔ ان عبادات اور تقریبات کے دوران خواتین اپنے سر کو سکارف سے ڈھکتی ہیں۔ یہ ایک ایسا مظہر ہے، جو اب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا میں کم ہی دکھنے میں آتا ہے۔
تصویر: Marija Mihailova
بالوں میں ڈھکی ہوئی خاتون
لمبے، گھنے اور سیاہ بال عرب ممالک میں خوبصورتی کی علامت ہیں۔ یہی بات اس مجسمے میں ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سویڈن کی ایرانی نژاد آرٹسٹ ماندانہ مقدم نے اپنے Chelgis I نامی اس مجسمے میں دکھایا ہے کہ اگرچہ بال عورت کی خوبصورتی کی علامت ہیں لیکن یہی بال ایک ایسا پردہ تخلیق کرنے کا باعث بنے ہیں، جس سے اس کی شناخت چھپ جاتی ہے۔
تصویر: Mandana Moghaddam
بال، صرف شوہر کی آنکھوں کے لیے
الٹرا آرتھوڈوکس یہودی روایات کے مطابق کسی خاتون کی شادی کے بعد اس کے بال صرف اس کا شوہر ہی دیکھ سکتا ہے۔ اس لیے شادی شدہ خاتون کو اپنے بال پردے میں رکھنا چاہییں، چاہے اس مقصد کی خاطر ہیڈ اسکارف پہنا جائے، مصنوعی بال(وِگ) استعمال کیے جائیں یا بالوں کو کسی اور طریقے سے ڈھانپ لیا جائے۔ یہ تصویر Leora Laor نے سن دو ہزار ایک میں یروشلم میں بنائی تھی، جس میں خواتین tichel نامی حجاب میں نظر آ رہی ہیں۔
تصویر: Leora Laor
مختلف تشریحات
یہودی خواتین کی یہ تصویر فیڈریکا والابریگا نے سن دو ہزار گیارہ میں نیو یارک کے قریب ایک ساحل سمندر پر بنائی تھی۔ اگرچہ ان تمام خواتین نے ہیڈ اسکارف پہن رکھے ہیں لیکن ان کے بال ان حجابوں سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ مذہبی عقائد تو بہت سے ہیں لیکن اس کا انحصار اس کے ماننے والوں پر ہے کہ وہ کس طرح ان کی تشریحات کرتے ہیں۔
تصویر: Federica Valabrega
بُرکینی سے پردہ
سمندر میں پیراکی کے دوران بھی اپنے عقائد سے وفادار رہنا؟ مغربی ممالک میں مقیم بہت سی مسلم خواتین کے لیے بُرکینی نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے کہ اپنے عقائد پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بھی کھلے آسمان تلے سمندر میں انجوائے کر سکتی ہیں۔ تاہم مغرب میں بھی کئی حلقے اس سوئمنگ سوٹ کو مسلم بنیاد پرستی کی علامت کے طور پر ’اشتعال انگیز‘ قرار دیتے ہیں۔