اسرائیلی وزیر اعظم کا تاریخی دورہ ء یونان
16 اگست 2010اسرائیلی سفارتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نیتن یاہو اپنے یونانی ہم منصب جارج پاپاندریو کے ساتھ تجارت، دفاع اور سیاحت سے متعلقہ امور پر بات کریں گے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترکی کے ساتھ تعلقات میں حالیہ سردمہری اور کشیدگی کے بعد اسرائیل اب یونان کو بحیرہ روم میں اپنے اہم تجارتی و دفاعی حلیف کی حیثیت سے دیکھ رہا ہے۔
غزہ جانے والے امدادی بحری قافلے پر اسرائیلی کمانڈوز کی کارروائی میں نو ترک شہریوں کی ہلاکت کے بعد سے تل ابیت اور انقرہ کے تعلقات بگڑے ہیں۔ اس سلسلے کا آغاز اس وقت ہوا جب ترکی نے اسرائیل کی جانب سے 2008ء میں غزہ پر کی گئی بمباری کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی تھی۔
نیتین یاہو کے ساتھ یونان جانے والے ایک عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ حالیہ دنوں میں ایتھنز اور تل ابیب کے درمیان تعلقات میں نئی گرمجوشی دیکھی جارہی ہے۔ روایتی طور پر ہرسال بڑی تعداد میں اسرائیلی سیاح ترکی کا رخ کرتے تھے تاہم اب ان کا رخ یونان کی جانب مڑنے کا امکان ہے۔ ایسے اشارے بھی ہیں کہ وزیر اعظم نیتن یاہو اپنے یونانی ہم منصب کو یقین دہانی کرائیں گے کہ اسرائیلی کمپنیاں یونان میں مزید سرمایہ کاری کرسکتی ہیں۔
روایتی طور پر عرب ریاستوں کی حلیف سمجھی جانی والی ایتھنز حکومت نے 1990ء میں، یعنی یورپی ریاستوں میں سب سے آخر میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے تھے۔ حال ہی میں یونان نے مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے حل کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے اپنی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل نیٹو کی رکن کی حیثیت سے، مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ترکی ہی اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان رابطے کا کام سرانجام دیتا تھا۔ جولائی میں اسرائیل کے دورے کے موقع پر یونانی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ یہ یونان اور مشرق وسطیٰ کے مفاد میں ہے کہ وہ تنازعے کے حل میں کردار ادا کریں۔
نیتن یاہو کے دورہ ء یونان کے حوالے سے یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ یونان اور ترکی کے تعلقات تاریخی طور پر کشیدہ رہے ہیں۔ اگرچہ رواں سال مئی میں ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے یونان کا دورہ کرکے تعلقات میں بہتری لانے کا عزم ظاہر کیا تھا تاہم اس سے قبل دونوں ممالک کئی بار جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ