اسرائیلی وزیر فلسطینی حملہ آوروں کے مکان منہدم کرنے کے حامی
29 اکتوبر 2017سخت گیر موقف کے حامل سمجھے جانے والے اسرائیلی وزیردفاع ایویگدور لیبرمن نے اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایسے فلسطینی جو اسرائیلی شہریوں پر جان لیوا حملوں میں ملوث ہوں ان کے مکانات کے ساتھ ساتھ ایسے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے مکانات بھی منہدم کرنے چاہیئیں، جو اسرائیلی شہریوں کو شدید زخمی کرتے ہیں۔
فلسطینی حملہ آور کی فائرنگ کے نتیجے میں تین اسرائیلی ہلاک
’فائرنگ کا واقعہ‘ مسجد اقصیٰ میں جمعے کی نماز نہیں ہو گی
یروشلم میں ایک اور فلسطینی حملہ آور ہلاک کر دیا گیا
لیبرمان کے بیان کے مطابق فوج اور وزارت دفاع کو احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ ’وہ اسرائیلی شہریوں کو زخمی کرنے والے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث فلسطینیوں کے مکانات کے انہدام کے امکانات کا بھی جائزہ لیں۔‘‘
ان کی جانب سے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’خون ریز کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کے مکانات کا انہدام ایک آزمودہ اور کارگر نسخہ ہے، جس کے ذریعے دہشت گردی اور اس کی منصوبہ بندی کا انسداد ممکن ہے۔‘‘
لیبرمن کے مطابق، ’’کوئی ایسا حملہ جس میں کوئی قتل ہو اور کوئی ایسا حملہ جو کسی شخص کو شدید زخمی کرنے کا موجب بنے، دونوں میں کوئی فرق نہیں رکھا جانا چاہیے۔ دونوں صورتوں میں دہشت گردوں کے مکانات گرا دیے جائیں۔‘‘
اسرائیل کا موقف ہے کہ حملہ آوروں کے مکانات کے انہدام کی پالیسی سن 1967 سے جاری ہے اور اس سے مستقبل میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو روکا جا سکتا ہے۔
تاہم دوسری جانب اس پالیسی پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اجتماعی سزا کی ایک قسم ہے، جس میں کسی گھرانے کے ایک فرد کے جرم کی سزا پورے خاندان کو دی جاتی ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔
ناقدین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اس پالیسی سے کس طرح حملوں کا سدباب ہوا ہے کیوں کہ ایسے اقدامات سے مزید اشتعال پھیلتا ہے، جو مزید حملہ آوروں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔