اسرائیلی وزیر کا مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ کا متنازعہ دورہ
26 دسمبر 2024یروشلم سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی تاریخی حد تک دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی موجودہ حکومت کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے جمعرات 26 دسمبر کو مسجد اقصیٰ کے احاطے کا جو متنازعہ دورہ کیا، اس کی فوری مذمت کرتے ہوئے فلسطینی خود مختار اتھارٹی اور اردن کی طرف سے کہا گیا کہ انتہائی دائیں بازو کے اس اسرائیلی سیاست دان کا وہاں جانا ''دانستہ اشتعال انگیزی‘‘ ہے۔
مسجد اقصیٰ کے احاطے میں یہودیوں کے عبادت کرنے پر پابندی
اسرائیل نے 1967ء کی عرب اسرائیلی جنگ میں مشرقی یروشلم پر قبضہ کر کے اسے اپنے ریاستی علاقے میں شامل کر لیا تھا اور وہاں مسجد اقصیٰ کے احاطے تک یہودی جا تو سکتے ہیں تاہم ان کے وہاں عبادت کرنے یا دعا مانگنے پر خود اسرائیل نے بھی پابندی لگا رکھی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرقی یروشلم میں یہ تاریخی مقام مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں تینوں مذاہب کے لوگوں کے لیے انتہائی مقدس ہے۔ یہ مقام خاص طور پر مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین کشیدگی کا باعث اور اپنی تاریخی حیثیت کی وجہ سے اس لیے بھی متنازعہ ہے کہ دونوں ہی اس پر اپنی ملکیت کے دعوے کرتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ تنازع: سلامتی کونسل کا کسی کارروائی سے گریز
مسلمانوں کے لیے یہ جگہ حرم شریف اور قبلہ اول کے طور پر ان کے تین مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے جبکہ یہودیوں کے نزدیک، جو اس مقام کو ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں، یہ جگہ اس لیے بہت مقدس ہے کہ وہاں ان کی وہ دوسری عبادت گاہ تھی، جسے رومیوں نے سن 70 بعد از مسیح میں تباہ کر دیا تھا۔
بن گویر پابندی کی کئی بار خلاف ورزی کر چکے ہیں
مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں یہودیوں کے عبادت کرنے پر عائد اسرائیلی حکومت کی پابندی کی خود ایک وزیر ہونے کے باوجود بن گویر ماضی میں بھی کئی مرتبہ خلاف ورزی کر چکے ہیں۔
کمپاؤنڈ کے دورے کے دوران ان کے ساتھ کئی اسرائیلی سکیورٹی اہلکار بھی تھے۔ بن گویر نے وہاں دعا بھی مانگی اور پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ''میں آج صبح ہماری ٹیمپل کی جگہ پر گیا تھا اور وہاں میں نے اپنے فوجیوں کے لیے امن، تمام یرغمالیوں کی جلد واپسی، اور فتح کے لیے دعا مانگی۔‘‘
اسرائیلی وزیر کا دورہ بیت المقدس، مسلمان ممالک کا احتجاج
اتمار بن گویر نے اپنی اس پوسٹ میں جو پیغام دیا، اس سے مراد غزہ پٹی کی جنگ میں اسرائیل کی فتح اور حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں کی جلد واپسی تھی۔
اس دورے کے بعد اسرائیلی وزیر نے وہاں بنائی گئی اپنی ایک تصویر بھی ایکس پر پوسٹ کی، جس میں وہ خود اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی دیکھے جا سکتے تھے۔
مسجد اقصیٰ فلسطینیوں کی قومی شناخت کی علامت بھی
یروشلم شہر، جسے مسلم دنیا میں بیت المقدس کہا جاتا ہے، کے قدیمی مشرقی حصے میں مسجد اقصیٰ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ صرف دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے تیسری مقدس ترین جگہ ہی نہیں بلکہ یہ فلسطینیوں کے لیے ان کی قومی شناخت کی سب سے بڑی علامت بھی ہے۔
اب تک نافذالعمل قواعد کے تحت مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں صرف مخصوص اوقات میں یہودی اور دیگر غیر مسلم جا تو سکتے ہیں، تاہم انہیں وہاں عبادت کرنے، دعا مانگنے یا اپنی مذہبی علامات کی نمائش کی اجازت نہیں ہوتی۔
متنازعہ دورے پر ردعمل اور مذمت
فلسطینی خود مختار انتظامیہ کی وزارت خارجہ نے بن گویر کے دورے کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ یہ تازہ ترین دورہ ''قابل مذمت‘‘ ہے اور اس اسرائیلی وزیر کا حرم شریف کے احاطے میں دعا مانگنا ''فلسطینیوں اور کروڑوں مسلمانوں کو دانستہ اشتعال‘‘ دلانا ہے۔
عرب لیگ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کو عبادت سے روکے
اسی طرح اردن نے بھی، جس کے پاس مسجد اقصیٰ اور اس کے کمپاؤنڈ کا انتظام ہے، اس دورے کی مذمت کی ہے۔ اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ بن گویر کا دورہ ''اشتعال انگیز اور ناقابل قبول اعمال‘‘ ہیں۔
اس مذمت کے برعکس اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے بن گویر کے دورے کے بعد جاری کردہ ایک مختصر بیان میں صرف یہ کہا گیا، ''ٹیمپل ماؤنٹ پر حالات کو جوں کا توں رکھنے سے متعلق صورت حال تبدیل نہیں ہوئی۔‘‘
م م/ا ب ا، ر ب (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)