اسرائیلی کمانڈوز کی کارروائی پر محتاط امریکی رویہ
1 جون 2010امریکی صدر باراک اوباما کو ایک طرف ملک کے اندر اسرائیل کے ساتھ ہمدری کے جذبے کا خیال رکھنا تھا اور دوسری جانب واشنگٹن کی ثالثی میں مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات کی بحالی کی کوششوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا اوباما کے لئے ضروری تھا۔
گزشتہ روز کے واقعے کے بعد اوباما نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتین یاہو کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرکے معاملے کی مکمل حقائق کی چھان بین کی ضرورت پر زور دیا۔ وائٹ ہاؤس سے جاری اعلامئے کے مطابق: ’’ صدر مملکت نے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر بے حد افسوس اور زخمیوں کے لئے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔‘‘ اوباما اور نیتین یاہو کے تعلقات مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری کے نئے منصوبوں کے باعث پہلے ہی سردمہری کا شکار ہیں۔
نیتین یاہو کو منگل کو کینیڈا سے امریکہ روانہ ہونا تھا جہاں ان کی امریکی صدر سے ملاقات متوقع تھی، مگر بدلتی صورتحال کے پیش نظر اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ ملاقات منسوخ کرکے اسرائیل جاکر صورتحال کا جائزہ لینے کو ترجیح دی ہے۔
امریکی سینٹ کی خارجہ امورسے متعلق کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان کیری کا کہنا ہے کہ ابھی صورتحال مبہم ہے، مکمل اور جامع تحقیقات کی ضرورت ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک سے ٹیلی فون پر بات کرکے ’’بعض حقائق‘‘ کی معلومات حاصل کی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان پی جی کراؤلی کے بقول امریکہ انسانی بنیادوں پر امداد کی غزہ تک فراہمی کی حمایت کرتا ہے تاہم اسرائیل کی سلامتی سے متعلق خدشات کا بھی خیال رکھنا چاہیے تھا۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ اس کے کمانڈوز پر امن طور پر اس امدادی بحری بیڑے پر اترنا چاہتے تھے تاہم امدادی قافلے میں موجود مبینہ شرپسندوں نے کمانڈوز پر حملہ کیا، جس کی جوابی کارروائی میں ہلاکتیں ہوئیں۔ امدادی بحری جہازوں پر لگ بھگ 700 افراد سوار تھے۔ اقوام متحدہ میں مصری سفیر کے مطابق اسرائیل کے اس کمانڈو ایکشن کے نتیجے میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اسرائیل نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد نو بتائی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتین یاہو کا کہنا ہے کہ غزہ مسلح عسکریت پسندوں کا گڑھ بن چکا ہے جہاں سے اسرائیل پر حملے کئے جاتے ہیں۔
مسلم ممالک ان حالیہ واقعات پر سخت برہمی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سراپا احتجاج نظر آ رہے ہیں۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل، غزہ پر نئے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ مسلم ممالک کے علاہ یورپ اور امریکہ کے بعض شہروں میں بھی اسرائیلی کمانڈوز کی کاررائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف امریکی مؤقف کے برعکس یورپی یونین اور روس نے اسرائیلی کارروائی کی کھلے الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انفرادی حیثیت میں بھی غزہ کا چار سالہ محاصرہ ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ دریں اثناء جرمنی کے دفتر خارجہ نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ چھ کشتیوں پر مشتمل اس امدادی بحری بیڑے میں متعدد جرمن باشندے بھی شامل تھے جن میں سے 2 بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سیاستدان ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: کشور مصطفیٰ