اسرائیل اور حماس میں لڑائی، ہلاکتوں کی تعداد 1500 سے متجاوز
10 اکتوبر 2023اسرائیل اور حماس کے درمیان ہفتے کے روز شروع ہونے والی جنگ میں اب تک 1500 سے زیادہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ادھر اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی پر بمباری جاری ہے جبکہ حماس کی طرف سے بھی حملے جاری ہیں۔
ہفتے کے روز جب سے عسکریت پسند گروپ حماس نے اسرائیل پر حملے شروع کیے اس وقت سے اب تک اسرائیل میں تقریباً 900 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیل کے فضائی حملوں میں اب تک کم سے کم 690 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دونوں جانب سے کئی ہزار لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔
گزشتہ رات بھی اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلسل بمباری جاری رہی جبکہ حماس نے دھمکی دی ہے کہ جب بھی اسرائیل شہریوں کو خبردار کیے بغیر فضائی حملہ کرے گا، تو وہ اس کے بدلے میں ایک یرغمالی کو قتل کر دیں گے۔
گزشتہ روز اسرائیل نے غزہ پٹی کے مکمل محاصرے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب غزہ میں کسی بھی چیز کی سپلائی کی اجازت نہیں ہو گی۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے پیر کے روز ایک ویڈیو بیان میں فلسطینیوں کو ''حیوانیت پسند لوگ'' قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''ہم غزہ کا مکمل محاصرہ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ اب نہ بجلی، نہ خوراک، نہ پانی، نہ گیس۔ان سب پر پابندی عائد رہے گی۔'' حالانکہ اقوام متحدہ نے اسرائیل کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔
رات میں غزہ پر 200 سے زیادہ حملے
اسرائیلی فضائیہ نے منگل کی صبح ایک تازہ بیان میں کہا کہ اس نے غزہ میں حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے 200 ٹھکانوں کو راتوں رات فضائی حملوں سے نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی اے ایف) سوشل میڈیا پر لکھا کہ اس کے درجنوں جنگی طیاروں نے رام اللہ اور خان یونس کے علاقوں پر حملے کیے، جس میں کمانڈنٹ اور کنٹرول سینٹرز سمیت متعدد اہداف کو تباہ کر دیا گیا۔ اس بیان کے مطابق ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کی جگہ ایک مسجد کے اندر تھی، اور حماس کے ایک مبینہ کمانڈر کے گھر میں بھی ہتھیار تھے۔
اس دوران سرائیلی فوج نے غزہ چھوڑنے والے کسی بھی فلسطینی کو مصر جانے کا مشورہ دیا ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیشٹ نے ایک بریفنگ کے دوران کہا، ''ہمیں معلوم ہے کہ رفع کراسنگ اب بھی کھلی ہے۔ جو کوئی بھی باہر نکل سکتا ہے، میں انہیں باہر جانے کا مشورہ دوں گا۔''
مصر اور غزہ کی سرحد پر رفع کراسنگ عام طور پر غزہ والوں کے لیے ایک لائف لائن ہے۔
اسرائیل کی حماس کے لیے تنبیہ
اسرائیلی وزیر اعظم بنجیمن نیتن یاہو نے حماس کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''گرچہ اسرائیل نے یہ جنگ شروع نہیں کی، تاہم وہی اسے ختم کرے گا۔'' واضح رہے کہ حماس کے خلاف جوابی کارروائی کے ایک حصے کے طور پر اسرائیل نے تقریباً تین لاکھ فوجیوں کو جمع کیا ہے۔
معروف اخبار 'ٹائمز آف اسرائیل' کے مطابق نیتن یاہو نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا: ''اسرائیل حالت جنگ میں ہے، ہم یہ جنگ نہیں چاہتے تھے۔ یہ ہم پر انتہائی سفاکانہ اور وحشیانہ طریقے سے زبردستی تھوپی گئی۔ لیکن گرچہ اسرائیل نے یہ جنگ شروع نہیں کی، تاہم اسرائیل اسے ختم کرے گا۔''
ان کا مزید کہنا تھا کہ عسکریت پسند گروپ حماس کے خلاف اسرائیل 'زبردست طاقت‘ کا استعمال کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی دفاعی افواج کی جانب سے دہائیوں میں اسرائیلی سرزمین پر بدترین حملے کی ابھی صرف جوابی کارروائی شروع ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا، ''حماس کی سمجھ میں آجائے گا کہ ہم پر حملہ کر کے اس نے تاریخ کی سب سے بڑی غلطی کی ہے۔ انہیں اس کی ایسی قیمت ادا کرنی پڑے گی کہ وہ اور اسرائیل کے دوسرے دشمن آنے والی دہائیوں تک اسے یاد رکھیں گے۔''
امریکہ اور مغربی ممالک کی اسرائیل کے ساتھ یکجہتی
اس دوران امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی نے اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مشترکہ طور پر ایک بیان جاری کیا۔
پانچوں ممالک کے رہنماؤں نے اسرائیل کے لیے ''مستقل اور متحدہ حمایت'' کا اظہار کیا اور ''حماس اور اس کی دہشت گردانہ خوفناک کارروائیوں کی واضح طور پر مذمت کی۔''
جرمن چانسلر اولاف شولس نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ پانچوں ممالک ''اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اسرائیل اپنے شہریوں پر ہونے والے گھناؤنے حملوں کے خلاف اپنا دفاع کر سکے۔''
پانچوں ممالک کے مشترکہ بیان میں کہا گیا، ''ہم سب فلسطینی عوام کی جائز امنگوں کو تسلیم کرتے ہیں، اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے انصاف اور آزادی کے مساوی اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن کوئی غلطی نہ کریں: حماس ان امنگوں کی نمائندگی نہیں کرتی ہے اور یہ فلسطینی عوام کو دہشت گردی اور خونریزی سے زیادہ کچھ نہیں دیتی ہے۔''
ایسا لگتا ہے کہ اس بیان میں ایران جیسی دیگر علاقائی طاقتوں کو مزید بدامنی یا تنازعے کو ہوا دینے کی کوشش نہ کرنے کی تنبیہ بھی شامل ہے۔
پانچوں ممالک نے کہا کہ ''ہم مزید اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ وقت نہیں ہے کہ اسرائیل کے دشمن ان حملوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے کسی بھی فریق کا استحصال کر سکیں۔''
ان رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ ''حماس کے دہشت گردانہ اقدامات کا کوئی جواز نہیں ہے اور اس کی عالمی سطح پر مذمت کی جانی چاہیے۔''
فلسطین کی حمایت میں ریلیاں اور تنقید
دنیا کے بیشتر بڑے شہروں میں فلسطینیوں کے حامیوں کے مظاہروں نے کچھ حلقوں میں سوالات اور تنقید کو بھی جنم دیا ہے۔
نیو یارک سٹی میں فلسطین کے حامی مظاہرین اسرائیلی قونصل خانے کے پاس سے گزرے جن کے پرچم اور پلے کارڈز پر لکھا تھا، ''غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں '' اور ''اسرائیل جہنم میں جائے۔''
حملوں سے ناراض اسرائیلی نواز مظاہرین کا بھی ایک گروپ وہاں تھا اور پولیس کی بھاری موجودگی نے انہیں دوسرے گروپ سے الگ کرنے کی کوشش کی۔
کینیڈا میں وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اسرائیل کے لیے یکجہتی کے اجتماع میں شمولیت اختیار کی اور حماس کے حملوں کی حمایت کرنے والے مظاہروں کی مذمت کی۔
ان کا کہنا تھا، ''تشدد کی تعریف کینیڈا میں کبھی بھی قابل قبول نہیں ہے، کسی بھی گروپ یا کسی بھی صورت حال میں۔ میں اسرائیل پر حماس کے حملوں کی حمایت میں ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کی شدید مذمت کرتا ہوں۔''
لیکن عرب دنیا کے ساتھ ہی لندن اور میونخ جیسے دنیا کے بڑے شہروں میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کی مخالفت میں بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)