1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

اسرائیل اورفلسطینی عسکریت پسندوں کے مابین غیرمستحکم جنگ بندی

15 مئی 2023

اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ اسلامی جہاد کے درمیان جنگ بندی کے باوجود حملے جاری تھے، تاہم اب ماحول پرسکون ہے۔ امریکہ نے جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔

Israelisch-palästinensischer Konflikt | Gaza
تصویر: Fatima Shbair/AP Photo/picture alliance

اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ اسلامی جہاد کے درمیان جنگ بندی کا آغاز متزلزل تھا، تاہم اتوار کے روز اس پر عمل ہوا اور یہ اب بھی برقرار ہے۔ اسرائیل اور مصری میڈیا نے ہفتے کے روز اطلاع دی تھی کہ جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا ہے۔

فلسطینی علاقوں میں شہری ہلاکتیں، اقوام متحدہ کی طرف سے مذمت

جنگ بندی کی ابتدا ہفتے کی رات سے ہوئی، تاہم اس کے نفاذ کے بعد اتوار کے روز غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر راکٹ فائر کیے گئے۔ بعد میں فلسطین کے عسکریت پسندوں نے بتایا کہ ایسا ''تکنیکی خرابی'' کی وجہ سے ہوا۔

اس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ راکٹ تکنیکی خرابی کی وجہ سے ''غلطی سے لانچ ہو گیا اور وہ جنگ بندی کے پابند ہیں۔''

غزہ پر اسرائیلی حملے: جہاد اسلامی کے تین کمانڈر اور دس عام فلسطینی شہری ہلاک

اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے اتوار کو راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ کی پٹی پر حکمرانی کرنے والی عسکریت پسند تنظیم حماس کے دو فوجی ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے۔ اسرائیل کا دعوی ہے غزہ سے حملوں کی ذمہ داری حماس پر ہے اس لیے وہ اکثر حملوں کا جواب حماس کو نشانہ بنا کر دیتا ہے۔

فلسطین: فنڈ کی قلت کے سبب اقوام متحدہ کا فوڈ پروگرام معطل

اس سے قبل اسرائیل کے ایک معروف اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے اطلاع دی تھی کہ جنگ بندی کے نفاذ کے بعد بھی اسلامی جہاد کی جانب سے راکٹ فائر کرنے کا سلسلہ جاری ہے اس لیے اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) کی جانب سے غزہ میں اہداف پر حملے بھی جاری ہیں۔ تاہم پھر بعد میں صورت حال پر سکون دکھائی دی۔

غزہ پٹی اور لبنان پر اسرائیل کے جوابی حملے

جنگ بندی کے بعد غزہ میں خوشی کا ماحول تصویر: Mustafa Hassona/AA/picture alliance

جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات

خبر رساں اداروں نے پہلے نامعلوم فلسطینی حکام کے حوالے سے یہ اطلاع دی تھی کہ ہفتے کی شام سے اسرائیل اور اسلامی جہاد نے مصر کی ثالثی سے جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ہی اسرائیل کے سرکاری چینلز نے بھی جنگ بندی کی خبروں کی تصدیق کی۔

اسرائیل کی جانب سے اس کے لیے مصر کے صدر کا شکریہ ادا کیا گیا کہ اس نے لڑائی کے خاتمے میں مدد کی۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے ایک ٹویٹ میں کہا: ''وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کا شکریہ ادا کیا اور جنگ بندی کے لیے مصر کی بھرپور کوششوں پر اسرائیلی ریاست کی جانب اس کی ستائش کی گئی۔''

نیتن یاہو کے دفتر نے ایک اور ٹویٹ میں کہا: ''اسرائیل کی جانب سے مصری اقدام کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ 'خاموشی کا مقابلہ خاموشی سے کیا جائے گا،' اور اگر اسرائیل پر حملہ یا دھمکی دی گئی تو وہ اپنے دفاع کے لیے ہر وہ کام کرتا رہے گا، جس کی اسے ضرورت ہے۔''

خبر رساں ادارے روئٹرز نے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ''جنگ بندی کے نافذ العمل ہونے کے بعد دونوں فریق جنگ بندی کی پابندی کریں گے، جس میں شہریوں کو نشانہ بنانا، مکانات کو مسمار کرنا، اور افراد کو نشانہ بنانے جیسی کارروائی کا خاتمہ شامل ہے۔''

اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکہ نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرائن ژاں پیئر نے ایک بیان میں کہا، ''امریکی حکام نے مزید جانی نقصان کو روکنے اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے امن بحال کرنے کے لیے اس قرارداد کو حاصل کرنے کے لیے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔''

تشدد کا ماحول

اسرائیل گزشتہ ہفتے سے غزہ میں حماس کے بعد دوسرے سب سے بڑے عسکریت پسند گروپ اسلامی جہاد کے رہنماؤں کو اپنے فضائی حملوں سے نشانہ بنا رہا تھا۔ اسرائیل، یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک نے اسلامی جہاد کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔

یہ گروپ بھی اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ داغ چکا ہے۔ اسلامی جہادی کی سینیئر شخصیت محمد الہندی نے مصر کے القاہرہ نیوز چینل پر جنگ بندی کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ''معاہدہ مصر کی مسلسل کوششوں کی بدولت طے پایا ہے۔ ہم اس کوشش کو سراہتے ہیں۔''

فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق حالیہ تشدد میں اب تک کم از کم 34 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 14 عام شہری ہیں، جن میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔

ایک اسرائیلی بھی اس وقت مارا گیا جب ایک راکٹ ریہووٹ قصبے میں ایک اپارٹمنٹ پر گرا۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)

غزہ پٹی میں اسرائیلی دفاعی افواج کے جوابی حملے

02:01

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں