اسرائیل اور فلسطین کے درمیان صلح کروا دوں گا، ٹرمپ
شامل شمس
23 نومبر 2016
نامزد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن معاہدہ کروا کر خوشی محسوس کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
اشتہار
مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے امریکی صدر باراک اوباما کے آٹھ سالہ دور صدارت میں متعدد بار کوششیں کی گئیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ اوباما سے قبل بھی امریکی صدور اس ضمن میں کوئی خاص پیش رفت حاصل نہ کر سکے تھے۔ یوں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرینہ تنازعے کو حل کرنے کے حوالے سے امریکا کوئی قابل ذکر کردار ادار کرنے سے قاصر رہا ہے۔ تاہم اب نامزد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس تنازعے کو حل کرنا چاہیں گے۔
امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’مجھے اسرائیل اور فلسطین میں صلح کروا کے بڑی خوشی ہوگی۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔‘‘
نیویارک ٹائمز کے ایک رپورٹر نے ٹوئیٹ کیا کہ ٹرمپ کا اس بارے میں مزید کہنا تھا کہ ان کے داماد جیریڈ کوشنر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن معاہدے کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ کوشنر ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا کے شوہر ہیں اور ان کا تعلق آرتھوڈاکس یہودی گھرانے سے ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کی آٹھ نومبر کے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد کوشنر نے درخواست کی تھی کہ وائٹ ہاؤس کی روزانہ سکیورٹی بریفننگز میں ان کو بھی رسائی دی جائے۔
تاہم ٹرمپ کے بارے میں فلسطینیوں کی رائے زیادہ اچھی نہیں ہے۔ صدارتی مہم کے دوران ان کا کہنا تھا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لینا چاہیے۔ یہ بات امریکا کی فلسطین اسرائیل تنازعے کے حوالے سے اب تک کی پالیسی کے بالکل برعکس ہے۔
دوسری جانب اسرائیل میں دائیں بازو کے حلقے ٹرمپ کی فتح پر خوش ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاریوں کے عمل کو اب تیزی سے بڑھایا جا سکتا ہے۔ صدر اوباما اس پالیسی کے شدید مخالف تھے۔
لہٰذا نیویارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں ٹرمپ نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے کروانے کی جو بات کی ہے اس پر عمل درآمد وہ کس طرح کریں گے یہ غیر واضح ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹرمپ کے بہت سے بیانات اور دعووں کے قابل عمل ہونے کے بارے میں اسی وقت معلوم ہوگا جب وہ بیس جنوری کو عہدہ صدارت سنبھال لیں گے۔ اس سے قبل کوئی پیش گوئی کرنا آسان نہیں ہے۔
’میکسیکو باڑ یا ٹرمپ کی دیوار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو سے ملنے والی امریکی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ ہو گا۔ کئی سالوں سے اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/J. L. Gonzalez
ٹرمپ کا تجربہ
اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا، ’’اپنی جنوبی سرحد پر میں ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور کوئی بھی مجھ سے بہتر دیواریں نہیں بنا سکتا۔ میں اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات میکسیکو سے حاصل کروں گا۔‘‘ بہرحال ابھی تک انہوں نے اونچی عمارتین اور ہوٹل ہی بنائے ہیں۔ ٹرمپ کے تارکین وطن سے متعلق دس نکاتی منصوبے میں اس دیوار کی تعمیر کو اوّلین ترجیح حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Torres
کام جاری ہے
امریکا اور میکسیکو کے مابین سرحد تقریباً تین ہزار دو سو کلومیٹر طویل ہے۔ ان میں سے گیارہ سو کلومیٹر پر پہلے ہی باڑ لگائی جا چکی ہے۔ یہ سرحد چار امریکی اور میکسیکو کی چھ ریاستوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ریاست نیو میکسیکو میں اس باڑ کی تعمیر کا کام ادھورا ہی رہ گیا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
حالات کے ہاتھوں مجبور
غیر قانونی طریقوں سے میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سالانہ بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق میکسیکو سے ہی ہوتا ہے۔ میکسیکو کے شہریوں کو بہت ہی کم امریکی ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک بہتر زندگی کا خواب لے کر امریکا آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Zepeda
باڑ کی وجہ سے تقسیم
یہ خاندان باڑ کی وجہ سے تقسیم ہیں تاہم ایک دوسرے مصافحہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے ان لوگوں کے جلد ہی ایک دوسرے سے ملنے کے امکانات بھی تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/J. West
تعصب
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا،’’میکسیکو اپنے اُن شہریوں کو ادھر بھیجتا ہے، جو کسی کام کے نہیں اور نا ہی ان میں کوئی قابلیت ہے۔ یہاں مسائل کا شکار میکسیکن ہی آتے ہیں، جو منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہونے کے علاوہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔‘‘ ٹرمپ ایسے تمام جرائم پیشہ افراد کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Bull
ریگستان، سرحد اور واپسی
میکسیکو کے بہت سے شہریوں کے لیے امریکا کا سفر اس باڑ پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ کچھ کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے جبکہ کچھ اس سرحد کو پار کرنے کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سرحدی محافظین کی جانب سے میکسیکو میں فائرنگ کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ ایک ایسے واقعے میں میکسیکو کے چھ ایسے شہری ہلاک ہو گئے تھے، جو سرحد پار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: Reuters/D.A. Garcia
اپنا محافظ خود
یہ ایک امریکی کاشتکار جم چلٹن ہے، جو اس بندوق کے ساتھ اپنی زمین کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس کا دو لاکھ مربع میٹر پر محیط یہ فارم میکسیکو کی سرحد کے پاس جنوب مشرقی ایریزونا میں واقع ہے۔ یہاں پر صرف یہ خار دار تار ہی لگی ہے۔ جم چلٹن خود ہی اپنا محافظ ہے اور اس دوران اسے کئی مرتبہ اپنی یہ شاٹ گن اٹھانی پڑی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F.J. Brown
عجب انداز میں اختتام
عام بول چال میں اس تقریباً ساڑھے بائیس کلومیٹر طویل باڑ کو ’تورتیا وال‘ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ ’تورتیا‘ میکسیکو کی ایک مخصوص قسم کی ایک روٹی کو کہا جاتا ہے۔ یہ باڑ سان ڈیاگو (کیلی فورنیا) اور بحرالکاہل کے درمیان نصب کی گئی ہے۔