1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل اور کوسووو نے ایک دوسرے کو تسلیم کر لیا

5 ستمبر 2020

کوسووو نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ یہ ملک اپنا سفارت خانہ بھی یروشلم میں کھولے گا۔ دوسری جانب سربیا نے بھی اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

USA will Sonderwirtschaftszone für Serbien und Kosovo
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Vucci

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں حریف ملک سربیا اور کوسووو نے تجارتی تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق کر لیا ہے جبکہ امریکا میں موجود ان دونوں ممالک کے رہنما اسرائیل کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لے آئے ہیں۔ سربیا پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہے لیکن اس نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ کوسووو نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ سفارت خانہ یروشلم میں ہی کھولنے کا اعلان کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کوسووو کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پہلا ایسا مسلم اکثریتی ملک ہو گا، جس کا سفارت خانہ یروشلم میں کھلے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا، '' امن کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور کئی دیگر ممالک بھی اس کی پیروی کریں گے۔‘‘
ٹرمپ انتظامیہ نے یکطرفہ طور پر سن دو ہزار سترہ میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے مئی دو ہزار اٹھارہ میں اپنا سفارت خانہ بھی وہاں منتقل کر دیا تھا۔ امریکا دیگر ممالک کی بھی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ اپنے اپنے سفارت خانے یروشلم میں کھولیں لیکن فلسطینیوں اور یورپ کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے کیوں کہ اس طرح اسرائیلی فلسطینی تنازعے کا دو ریاستی حل عملی طور پر ناممکن ہو جائے گا۔
اس طرح ابھی تک چار ممالک یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر چکے ہیں۔ ان میں امریکا اور گوئٹے مالا بھی شامل ہیں۔ مشرقی یروشلم کو فلسطینی اپنی مجوزہ ریاست کا دائمی دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے دوران اس پر قبضہ کیا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ اقتدار میں آنے کے بعد سے اسرائیل کی بھرپور حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں امریکی ثالثی میں متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ متحدہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا خلیجی ملک تھا۔
ا ا / ع ح (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں