1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل، ایران جوہری معاہدہ میں ترمیم کے جرمن موقف کا حامی

25 دسمبر 2020

جرمنی میں اسرائیلی سفیر نے ایران جوہری معاہدے کو اپ ڈیٹ کرنے کی برلن کی خواہش کی تائید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’گھڑی کی سوئیوں کو 2015 کے معاہدے تک واپس لے جانا ممکن نہیں۔‘

Iran IR 6 Zentrifugen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/IRIB

اگلے ماہ جو بائیڈن کے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایران جوہری معاہدے کو ایک وسیع تر سکیورٹی انتظامات میں تبدیل کرنے کے حوالے سے جرمنی کی پہل کا اسرائیل نے خیر مقدم کیا ہے۔

جرمنی میں اسرائیلی سفیر جیرمی اسحاقاروف نے کہا کہ انہیں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کی اس بات سے تقویت ملی ہے کہ جرمنی، ایران جوہری معاہدے پر نظر ثانی کرنے کا خواہش مند ہے۔ ہائیکو ماس نے معاہدے کو اپ ڈیٹ کرنے کو 'صحیح سمت میں ایک قدم‘ قرار دیا تھا۔

اسحاقاروف کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں شامل 5+1 ممالک یعنی چین، فرانس، روس، برطانیہ، امریکا اور جرمنی کو شام، لبنان، یمن اور عراق جیسے ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے میں 'ایران کے ملوث‘ ہونے کے معاملے کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

جوہری معاہدے میں رد و بدل کی ضرورت

سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے، جسے مشترکہ جامع منصوبہ عمل یا جے سی پی او اے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی رو سے ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں، اس پر عائد پابندیوں میں راحت دی گئی تھی۔

لیکن اسحاقاروف کا کہنا ہے کہ اب اس معاہدے کو اس کی سابقہ حقیقی شکل میں واپس لانا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا”لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ گھڑی کی سوئیوں کو واپس 2015 تک نہیں لے جا سکتے۔"

اسرائیلی سفیر کا مزید کہنا تھا”ایران میزائیلیں تیار کر رہا ہے اور میزائیلوں کی ٹیسٹنگ کر رہا ہے اور ان معاملات کوحل کرنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ ایران نے جے سی پی او اے معاہدے کی جو مکمل خلاف ورزیاں کی ہیں اسے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔"

سن 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعہ امریکا کو اس معاہدے سے یک طرفہ طورپر الگ کر لینے کے بعد معاہدے میں شامل دیگر عالمی طاقتیں اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔  جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس ماہ کے اوائل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ معاہدے پر مکمل نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

 ہائیکو ماس نے'اضافی جوہری معاہدہ‘ کی جو تجویز پیش کی ہے اس میں تہران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے علاوہ اس کے بلیسٹک راکٹ کے پروگراموں پر پابندی عائد کرنے کی بھی بات شامل ہے۔ اس میں مشرق وسطی کے دیگر ملکوں میں ایران کی مداخلت کو روکنے کی بات بھی کہی گئی ہے۔

ایران کی عدم دلچسپی

نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے اشارہ کیا ہے کہ اگر ایران جوہری معاہدے پر مکمل طورپر عمل کرنے کا وعدہ کرتا ہے تو واشنگٹن اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہوسکتا ہے۔ لیکن ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے معاہدے میں کسی طرح کی ترمیم کے حوالے سے بات چیت کو مسترد کردیا ہے۔

مراکش، سوڈان اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی عرب ملکوں اور اسرائیل کے درمیان معمول کے تعلقات قائم ہوجانے کے بعد ایران مزید الگ تھلگ پڑ گیا ہے اور 2015 کے جوہری معاہدے کے اس کے اصل شکل میں بحال ہونے کی امیدیں بظاہر کم نظر آرہی ہیں۔

 جان سلک/  ج ا / ص ز

ا

جنہيں قسمت نے ہمسايہ بنا ديا: ايک مسلمان، ايک يہودی

02:33

This browser does not support the video element.

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں