اسرائیل، ’ایران کے خلاف، سعودی عرب سے تعاون پر تیار ہے‘
صائمہ حیدر
16 نومبر 2017
اسرائیلی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ اُن کا ملک ’مشرق وسطیٰ کو کنٹرول‘ کرنے کے ایرانی منصوبے کا سد باب کرنے کے لیے سعودی عرب سے تعاون کے لیے تیار ہے۔
اشتہار
ایلاف نامی خبروں کی سعودی ویب سائٹ کے مطابق اسرائیل کے چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل گادی آئسن کوٹ نے ایک انٹرویو میں کہا، ’’ہم ایران کے مقابلے کے لیے اعتدال پسند عرب ممالک کے ساتھ اپنے تجربات اور خفیہ معلومات کے تبادلے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
اس سوال پر کہ کیا حال ہی میں سعودی عرب کے ساتھ کسی قسم کی خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا گیا ہے، آئسن کوٹ کا کہنا تھا،’’ اگر ضروری ہوا تو ہم معلومات کے تبادلے کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے بہت سے مفادات مشترک ہیں۔‘‘
اسرائیلی فوج نے اس انٹرویو کے مواد کی تصدیق کی ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین کوئی سرکاری سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ سنی اکثریتی عرب ملک سعودی عرب اور اور شیعہ اکثریتی غیر عرب ملک ایران میں تعلقات عرصے سے کشیدہ ہیں اور یہ کشیدگی حالیہ کچھ ہفتوں میں بڑھ گئی ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ملک کے معاملات میں ایران کے عمل دخل کا الزام عائد کیا تھا۔ چار نومبر کو اپنے ایک نشریاتی خطاب میں انہوں نے ایران اور اس کی اتحادی سمجھی جانے والی لبنانی شیعہ انتہا پسند تنظیم حزب اللہ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
حزب اللہ نے بھی سعودی عرب پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ لبنان میں اس شیعہ ملیشیا پر حملوں کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی ریاض حکومت پر اسی نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں۔
حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین سن 2006 میں ایک خونریز جنگ ہو چکی ہے۔ آئسن کوٹ نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا،’’ ہم لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ کوئی نیا تنازعہ شروع نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم وہاں اسرائیل کے لیے کسی قسم کے عسکری خطرات بھی مول نہیں لے سکتے۔‘‘
بارود کے ڈھیر پر بیٹھا اسرائیل
اسرائیل اور اُس کے پڑوسیوں کے مابین متعدد تنازعات پھر سے شروع ہو چکے ہیں۔ فوجی کارروائیوں میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ اسرائیل سے اعتدال پسندی سے کام لینے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
تصویر: Reuters
حماس کے خلاف ایک بڑی چھاپہ مار مہم
اسرائیلی فوج مغربی کنارے میں گزشتہ دو ہفتوں سے اپنے تین مغوی نوجوان شہریوں کو ڈھونڈ رہی ہے۔ یہ سن 2002ء کے بعد سے حماس کے خلاف سب سے بڑا آپریشن ہے۔ اس دوران بارہ ہزار گھروں کی تلاشی لی جا چکی ہے، پانچ فلسطینیوں کو قتل اور 350 سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Reuters
کوئی سراغ نہیں ملا
اسرائیل نے یہ کارروائی ایک یہودی مدرسے کے تین طالب علموں کی اچانک گمشدگی کے بعد شروع کی تھی۔ اسرائیل کے مطابق سولہ سے انیس سال کی عمر کے تین نوجوانوں کو فلسطینیوں نے اغوا کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا ہے۔ اقوام متحدہ کے قائم مقام سکریٹری جنرل جیفری فلٹ من کے مطابق ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ’باعث تشویش‘ ہے۔
تصویر: Timothy A. Clary/AFP/Getty Images
الزامات اور بے بسی
لاپتہ نوجوانوں کے لواحقین بے یقینی کا شکار ہیں۔ لاپتہ نوجوان کی کوئی خبر نہیں ہے۔ اسرائیل نے اغوا کا الزام حماس پر عائد کیا ہے جبکہ حماس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت اس واقعے کو حماس کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔
تصویر: Reuters
سرچ آپریشن کے سبب کشیدگی میں اضافہ
مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کے سرچ آپریشن کی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کی نظر میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سکیورٹی کی ذمہ داری عباس حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ صدر عباس پر اندرونی دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/Mussa Qawasma
فلسطینی فلسطینیوں پر حملہ آور
عباس حکومت تین اسرائیلی نوجوانوں کی تلاش میں مدد فراہم کر رہی ہے جس کے خلاف فلسطینیوں ہی نے رملہ میں مظاہرے بھی کیے ہیں۔ مبصرین کی نظر میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین حالیہ کشیدگی میں اضافہ فتح اور حماس کی متحدہ حکومت کے لیے بھی خطرہ ہے۔
تصویر: Reuters
گولان پہاڑیوں پر تنازعہ
اسرائیل اور شام کی سرحد پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ گولان کی پہاڑیوں پر کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی بمبار طیاروں نے شامی فوج کے نو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی فضائیہ کے ایک ترجمان کے مطابق یہ ایک جوابی حملہ تھا۔
تصویر: Reuters
شام کی اقوام متحدہ سے اپیل
شام نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی فضائیہ کے ان حملوں کی مذمت کرے۔ شامی وزارت خارجہ نے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کو خط لکھتے ہوئے ان حملوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters
اقوام متحدہ میں عدم اتفاق
لاپتہ یہودی طالب علموں کا معاملہ بھی اقوام متحدہ کے سامنے لایا گیا ہے۔ ایک روسی مسودے میں اغوا پر ’مذمت‘ اور متعدد فلسطینیوں کی ہلاکت پر ’افسوس‘ کا اظہار کیا گیا ہے۔ اردن نے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے جبکہ امریکا نے اسرائیل پر ہر قسم کی براہ راست تنقید کرنے سے انکار کر دیا ہے۔