ابتدائی ایگزٹ پولز کے نتائج کی بنیاد پر نیتن یاہو نے انتخابات میں اپنی لیکود پارٹی کی 'بڑی کامیابی‘ کا دعوی کیا ہے۔ تاہم اسے غالبا ً اکثریت نہیں مل سکے گی اور ملک ایک اور سیاسی تعطل کی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
اشتہار
اسرائیل میں دو سال سے بھی کم عرصے میں منگل کے روز ہونے والے چوتھے انتخابات کے بعد وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا سیاسی مستقبل ابھی غیر واضح ہے۔
اسرائیل کے تین سرکردہ نشریاتی اداروں کے ابتدائی ایگزٹ پولز کے مطابق نیتن یاہو کی دائیں بازو کی لیکود پارٹی کو پارلیمان میں 31 سے 33 تک سیٹیں ملنے کی توقع ہے۔ دوسری طرف ان کے حریف یائر لییڈ کی جماعت یش اتید کو 16سے 18سیٹوں پر جیت مل سکتی ہے۔ تاہم تازہ ترین ایگزٹ پولز کے مطابق نیتن یاہو حامی اور نیتن یاہو مخالف دونوں کیمپوں کو تقریباً برابر برابر تعداد میں سیٹیں ملنے کی توقع ہے اور دونوں میں سے کسی کو بھی اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔
دونوں گروپ مذہبی قوم پرست رہنما نفتالی بینٹ کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ نفتالی ماضی میں نیتن یاہو کے حلیف رہ چکے ہیں لیکن فی الحال وزیر اعظم کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ ہیں اور انہوں نے نیتن یاہومخالف گروپ میں شامل ہونے کو مسترد نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کو مخلوط حکومت بنانے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔ اس بات کو سات دہائیوں سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ ممالک کون سے ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kahana
1. افغانستان
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2. الجزائر
عرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ الجزائر سن 1962 میں آزاد ہوا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر الجزائر کا سفر ممکن نہیں۔ سن 1967 کی جنگ میں الجزائر نے اپنے مگ 21 طیارے اور فوجی مصر کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/A. Widak
3. انڈونیشیا
انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ سن 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rante
4. ايران
اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم سن 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: khamenei.ir
5. برونائی
برونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Rani
6. بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی حمایت کی تھی اور اس کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
7. بھوٹان
بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ بھوٹان کے خارجہ تعلقات بطور ملک بھی کافی محدود ہیں اور وہ چین اور اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو تسلیم نہیں کرتا جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
8. پاکستان
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف عسکری مدد روانہ کی تھی اور اسرائیل نے مبینہ طور پر پاکستانی جوہری منصوبہ روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پاکستان نے بھی دو ریاستی حل تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
9. جبوتی
جمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔
تصویر: DW/G.T. Haile-Giorgis
10. سعودی عرب
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے سن 2002 میں ایک ہمہ جہت امن منصوبہ تجویز کیا لیکن تب اسرائیل نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ سعودی عرب نے اسرائیل اور یو اے ای کے تازہ معاہدے کی حمایت یا مخالفت میں اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ہمسایہ ممالک اسرائیل اور شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو پائے۔ دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں شام کے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسرائیل خود کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے شام میں کئی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
شمالی کوریا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے سن 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
13. صومالیہ
افریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Chiba
14. عراق
عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ عراقی کردوں نے تاہم اپنی علاقائی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
تصویر: DW
15. عمان
عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم سن 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو سن 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ عمان بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
16. قطر
قطر اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اماراتی فیصلے کے بارے میں قطر نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
17. کوموروس
بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
18. کویت
کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے بارے میں کویت نے دیگر خلیجی ریاستوں کے برعکس ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Gambrell
19. لبنان
اسرائیل کے پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے سن 1982 اور سن 2005 میں بھی لبنان پر حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. A. Akman
20. لیبیا
لیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔
21. ملائیشیا
ملائیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
تصویر: Imago/Zumapress
22. یمن
یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
22 تصاویر1 | 22
حتمی نتائج اس ہفتے کے اواخر تک متوقع ہیں۔ 120 رکنی پارلیمان میں اکثریت کے لیے کم ا ز کم 61 سیٹوں کی ضرورت ہوگی اور حکومت سازی میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ اگر اس کے باوجود تعطل برقرار رہتا ہے اور اتحادی حکومت قائم نہیں ہو پاتی ہے تو اسرائیل میں ایک اور انتخاب ضروری ہوجائے گا اور مسلسل پانچ انتخابات اس بری طرح منقسم ملک کے لیے ایک غیر معمولی بات ہوگی۔
اشتہار
نیتن یاہو دعوے سے پیچھے ہٹ گئے
نتن یاہو نے انتخابات کے ابتدائی ایگزٹ پولز کے نتائج کو اپنی جماعت لیکود کے لیے 'بڑی جیت‘ قرار دیا تھا۔
انہوں نے فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنے بیانات میں کہا ”ووٹروں نے میری قیادت میں دائیں بازو اور لیکود پارٹی کو بڑی کامیابی سے ہمکنار کرایا ہے۔"
تاہم بعد میں اپنی تقریروں میں انہوں کامیابی کے دعوے نہیں دہرائے۔ انہوں نے بظاہر بینٹ سے حمایت حاصل کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے کہا”میں تمام منتخب رہنماوں سے رجوع کروں گا جو ہمارے اصولوں کو پسند کرتے ہیں۔ میں کسی کو مستشنی نہیں کروں گا۔"
اپوزیشن کا دعوی
اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ نے بھی اپنی اکثریتی حکومت قائم کرنے کا دعوی کیا ہے۔ توقع ہے کہ یش ایتید نیتن یاہو کی جماعت لیکود کے بعد دوسرے نمبر پر رہے گی۔
سابق ٹی وی اینکر یائر لیپڈ نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا”اس وقت نتین یاہو کے پاس (حکومت سازی کے لیے مطلوبہ) 61 سیٹیں نہیں ہیں۔" یائر لیپڈ نے مزید کہا کہ انہوں نے ”پارٹی رہنماوں کے ساتھ صلاح و مشورہ شروع کر دیا ہے اور ہم نتائج کا انتظار کریں گے لیکن ہم اسرائیل میں ایک بہتر حکومت کے قیام کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔“
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بینیٹ اپنی ممکنہ سات نشستوں کے ساتھ نیتن یاہو کی حکومت کے لیے حمایت بھی کر دیں تو بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ دونوں رہنماؤں میں اتحاد قائم ہوجائے۔
دونوں رہنما ایک بار قریبی اتحادی تھے اور دونوں ہی سخت گیر اور جارحانہ نظریات کے حامل ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کے تعلقات میں تناؤ بڑھا ہے۔
مذہبی قوم پرست بینیٹ نے ایک ریلی میں حامیوں سے کہا'آپ نے جو طاقت مجھے دی ہے میں اسے صرف ایک رہنما اصول کے مطابق استعمال کروں گا اور وہ یہ کہ اسرائیل کے لیے کیا اچھا ہے۔‘
نیتن یاہو سے عوامی ناراضگی کا سبب
نیتن یاہو پہلے اسرائیلی وزیر اعظم ہیں جن پر بدعنوانی کے الزامات کے باضابطہ الزامات عائد ہونے کے بعد ان پر فرد جرم عائد کی جائے گی تاہم وہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
سن 2020 میں عرب ملکوں کے ساتھ چار سفارتی معاہدوں کے بعد نیتن یاہو خود کو ایک عالمی مدبر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ معاہدے ان کے قریبی اتحادی اور دوست سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کے نتیجے میں ہوئے تھے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ اسرائیل میں سب سے زیادہ مدت تک وزارت عظمی پر فائز رہنے والے نیتن یاہو کو ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بجٹ خسارے کی وجہ سے عوامی ناراضگی کا سامنا ہے۔