اسرائیل غرب اردن کو ضم کرنے کے منصوبے سے باز رہے: جرمنی
2 جولائی 2020
جرمن پارلیمان نے اسرائیل سے غرب اردن کے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اپنے منصوبوں سے باز رہنے کو کہا ہے تاہم اس نے اسرائیل کے خلاف پابندیاں نافذ کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
اشتہار
جرمنی نے فلسطینی علاقے غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ پارلیمان میں اس سے متعلق قرارداد انگیلا میرکل کی مخلوط حکومت میں شامل تین سیاسی جماعتوں نے پیش کیا تھا اور کسی مخالفت کے بغیر اسے منظور کر لیا گیا۔
اس موقع پر جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کے علاوہ سبھی سیاسی جماعتوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ غرب اردن کو ضم کرنے کے اسرائیلی منصوبے سے اسرائیل کی سکیورٹی اور دو ریاستی حل کا منصوبہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے اس منصوبے سے مشرقی وسطی میں پورے خطے کی سکیورٹی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''یک طرفہ کارروائیوں سے امن نہیں حاصل کیا جا سکتا۔'' لیکن اے ایف ڈی کا کہنا تھا کہ غرب اردن کا انضام اسرائیل کے قومی مفاد میں ہے۔
جرمن پارلیمان نے اسرائیلی منصوبے کو مسترد تو کردیا تاہم اس حوالے سے اسرائیل کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کو یہ کہہ کر مسترد کیا کہ اس کا کوئی تعمیری اثر مرتب نہیں ہوگا۔ جرمنی کی طرف سے یہ پالیسی ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب یورپی یونین کی صدارت جرمنی کو ملنے والی ہے۔ یعنی اس سلسلے میں مستقبل میں یوروپی یونین کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کسی بھی طرح کی پابندی کا امکان کم ہے۔
اس سے متعلق قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یکطرفہ طور پر پابندی عائد کرنے سے متعلق ''بات چیت کرنے یا پھر پابندیوں سے متعلق دھمکیاں دینے سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے عمل پر تعمیری اثرات مرتب نہیں ہوتے ہیں۔''
اسرائیل کو اپنے اس منصوبے پر یکم جولائی سے عمل شروع کرنا تھا تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت میں شامل دیگر جماعتوں کو اس پر اب بھی کچھ تحفظات ہیں اس لیے اس میں پلان میں تاخیر ہو رہی ہے۔
بدھ کو اسرائیلی وزیر خارجہ گابی اشکینازی نے کہا تھا کہ غرب اردن کو اسرائیل کے ساتھ ملانے کے مجوزہ اقدام پر مقررہ تاریخ پر عمل ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ان کا تعلق مخلوط حکومت میں شامل نیتن یاہو کی حریف جماعت بلو اینڈ وائٹ پارٹی سے ہے۔
پارٹی کے سربراہ وزیر دفاع بینی گینٹز پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس معاملے میں جلد بازی کی کوئی ضرورت نہیں اور اسرائیل کو اس وقت اپنی تمام تر توجہ کورونا کے بحران پر دینی چاہیے۔
لیکن وزیراعظم نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ اس پلان پر جلد از جلد عمل کیا جائے۔ اسرائیل کے اس مجوزہ اقدام کو اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عرب ممالک کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ تاہم بینجمن نیتن یاہوکو یک طرفہ الحاق کے اس منصوبے میں امریکی صدر ٹرمپ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
ادھر غزہ اور غرب اردن میں اسرائیل کے اس مجوزہ منصوبے کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا ایسا کوئی اقدام ''اعلان جنگ'' تصور کیا جائے گا، جبکہ فلسطینی انتظامیہ نے کہا ہے کہ اگر نیتن یاہو فلسطینی علاقے ہڑپ کرنے کی کوششوں سے باز آجائیں تو وہ دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنے پر غور کر سکتے ہیں۔
ص ز/ج ا (ایجنسیاں)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔