1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

اسرائیل فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل کے لیے اسپین میں اجلاس

13 ستمبر 2024

اسپین آج بروز جمعہ مسلم اور یورپی ممالک کے وزراء کے ایک اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے، جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے دو ریاستی حل کو آگے بڑھانا ہے۔

اسپین نے 28 مئی کو آئرلینڈ اور ناروے کے ساتھ مل کر غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر مشتمل فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا
اسپین نے 28 مئی کو آئرلینڈ اور ناروے کے ساتھ مل کر غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر مشتمل فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھاتصویر: Rebecca Ritters/DW

ہسپانوی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں عرب لیگ اور او آئی سی کے غزہ رابطہ گروپ کے ارکان شرکت کریں گے۔ اس گروپ میں مصر، قطر، سعودی عرب، ترکی، اردن، انڈونیشیا، نائجیریا جیسے ممالک شامل ہیں۔

تاہم اس بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اجلاس میں کون کون حصہ لے گا۔ ہسپانوی وزیراعظم پیدرو سانچیز اپنی سرکاری رہائش گاہ پر اجلاس کے شرکاء کا استقبال کریں گے، جس کے بعد وزارت خارجہ میں اجلاس ہو گا، جس کی میزبانی اعلیٰ ہسپانوی سفارت کار خوسے مانوئیل الباریس کریں گے۔

حماس اسرائیل تنازعہ: عرب ممالک کہاں کھڑے ہیں؟

غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں، 'پیش رفت کی توقع کم ہی‘

یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ کے دفتر کی جانب سے جاری ایک الگ بیان میں کہا گیا کہ جوزیپ بوریل بھی مذاکرات میں حصہ لیں گے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارتی اجلاس میں مشرق وسطیٰ میں امن اور سلامتی کے لیے عالمی برادری کی شمولیت بڑھانے اور دو ریاستی حل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے چیلنج پر بات کی جائے گی۔

مانوئیل الباریس نے مئی میں اس گروپ کے ساتھ ایک سفارتی اجلاس کی میزبانی کی تھی، جس میں شرکاء نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا تھا کہ دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں، جو اسرائیل کے ساتھ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے لیے ایک ریاست تشکیل دے گا۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی سلامتی کی ضمانتیں اس کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیںتصویر: Anna Moneymaker/Getty Images

تنازعے کے حل کے لیے مطالبات میں اضافہ

سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد سے اس مسئلے کے حل کے لیے مطالبات بڑھ گئے ہیں۔

اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق حماس کے حملے کے نتیجے میں 1205 اسرائیلی مارے گئے تھے اور 251 کو قیدی بھی بنا لیا گیا تھا، جن میں سے 97 اب بھی غزہ میں موجود ہیں اور اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے 33 مارے گئے ہیں۔

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کے غزہ پر حملے میں اب تک 41 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

فلسطینی سیاسی دھڑے عبوری 'مفاہمتی حکومت‘ کے قیام پر متفق

ہسپانوی وزیراعظم پیدرو سانچیز کا شمار یورپ کی ان شخصیات میں ہوتا ہے، جو تنازعے کے آغاز کے بعد سے ہی اسرائیل کے غزہ پر حملے کی سخت ترین ناقد ہیں۔ ان کی نگرانی میں اسپین نے 28 مئی کو آئرلینڈ اور ناروے کے ساتھ مل کر غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر مشتمل فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا۔

رواں ماہ کے اوائل میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اسپین اور فلسطین کے درمیان پہلا دو طرفہ سربراہی اجلاس اس سال کے اختتام سے قبل منعقد کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے، "دونوں ریاستوں کے درمیان تعاون کے متعدد معاہدوں" پر دستخط ہوں گے۔

غزہ پر اسرائیل کے حملے میں اب تک 41 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیںتصویر: Abed Rahim Khatib/dpa/picture alliance

اسرائیل فلسطین ایک پیچیدہ تنازعہ

اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا تھا، جو اب تک جاری ہے۔ ان علاقوں میں یہودی بستیوں میں توسیع کے باعث مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔

اسرائیل نے 1980 میں مشرقی یروشلم کو بھی ایک ایسے اقدام میں ضم کر لیا تھا جسے عام طور پر بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی سلامتی کی ضمانتیں اس کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ناروے کے وزیر خارجہ نے کہا کہ جن مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے، ان میں "فلسطینی ریاست کا حقیقی قیام یا اس کے لیے ایک قابل اعتبار راستہ" اور فلسطینی اداروں کی مضبوطی شامل ہے۔

ان میں حماس کو غیر فعال کرنا بھی شامل ہے، جس کا جنگ سے پہلے سےغزہ پر کنٹرول ہے۔ خیال رہے کہ امریکہ، اسرائیل، جرمنی اور بعض یورپی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

اسرائیل فلسطین تنازعے کا حل اتنا مشکل کیوں؟

15:09

This browser does not support the video element.

ج ا ⁄  ش ر⁄ ع ا (اے ایف پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں