1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل قانوناﹰ یہودی ریاست ہونی چاہیے، نیتن یاہو

مقبول ملک2 مئی 2014

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ایک ایسا نیا قانون منظور کرانا چاہیں گے، جس کے تحت اسرائیل کو ایک یہودی ریاست قرار دیا جا سکے۔ عرب اسرائیلی سیاستدانوں کے بقول اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینا ’نسل پرستانہ‘ اقدام ہو گا۔

تصویر: picture-alliance/dpa

بینجمن نیتن یاہو نے جمعرات کے روز تل ابیب میں اپنے ایک خطاب میں کہا کہ وہ ایک ایسے نئے لیکن ’بنیادی قانون‘ کے حامی ہیں جس کے تحت اسرائیل کو یہودیوں کی قومی ریاست قرار دیا جا سکے۔ نیتن یاہو کی یہ تجویز بظاہر فلسطینیوں کے اس موقف کا رد عمل ہے، جس کے تحت وہ اب ناکام ہو چکی امن بات چیت کے سلسلے میں اسرائیلی ریاست کی ایسی کوئی بھی نئی حیثیت تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

نیتن یاہو نے تل ابیب کے اسی ہال میں، جہاں 1948ء میں اسرائیل کے اعلان آزادی کی دستاویز پر دستخط کیے گئے تھے، ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ’بنیادی قانون‘ کی وکالت کریں گے، جو اسرائیل کے ریاستی وجود کی تعریف اس طرح کرے کہ یہ ملک ’یہودیوں کی قومی ریاست‘ ہے۔

نیتن یاہو، دائیں، فلسطینی صدٰر محمود عباس کے ساتھ، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

نیتن یاہو نے فلسطینیوں کا نام لیے بغیر ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جو حلقے ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے خواہش مند ہیں، وہ اسرائیل کو ایک یہودی ریاست تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسرائیل کی بقا کے حق کو چیلنج کر رہے ہیں۔

نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ ایک یہودی، جمہوری ریاست کے طور پر اسرائیل میں اس کے یہودی اور غیر یہودی تمام شہریوں کے مکمل انفرادی اور سماجی حقوق کی برابری کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے گا۔

خبر ایجنسی روئٹرز نے یروشلم سے اس بارے میں اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا ہے کہ ایسا کوئی بھی ممکنہ اقدام حتمی قیام امن کے سلسلے میں فلسطینیوں کی خواہشات کے منافی ہو گا، جو اسرائیل کو بطور ایک یہودی ریاست کے تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل کو قانونی طور پر یہودی ریاست قرار دینے سے اس ملک کی عرب اقلیتی آبادی کے حقوق کا تحفظ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔

فلسطینی سیاستدانوں اور اسرائیل کی عرب اقلیت کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس طرح اسرائیل کی عرب نسل کی اس اقلیت کے خلاف امتیازی برتاؤ کا شدید خطرہ پیدا ہو جائے گا، جس کا مجموعی ملکی آبادی میں تناسب 20 فیصد کے قریب بنتا ہے۔

فلسطینیوں کے دو بڑے متحارب دھڑوں، فتح اور حماس کے مابین حال ہی میں ایک تاریخی مصالحتی سمجھوتہ طے پا گیا تھاتصویر: SAID KHATIB/AFP/Getty Images

اس کے علاوہ اسرائیل کو ممکنہ طور پر یہودی ریاست قرار دینے سے ان فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے حق کی بھی نفی ہو جائے گی جو 1948ء کے بعد سے مختلف جنگوں کے نتیجے میں ہجرت پر مجبور ہوئے اور آج تک اپنے ان آبائی علاقوں میں واپسی کے خواہش مند ہیں، جو اب اسرائیلی ریاست میں شامل کیے جا چکے ہیں۔

وزیر اعظم نیتن یاہو کے اس بیان پر اپنے رد عمل میں اسرائیل کی بائیں بازو کی جماعت، جمہوری محاذ برائے امن و مساوات سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان محمد برکہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینے کے لیے جو بھی قانون سازی کی گئی، وہ اپنی نوعیت اور مقصدیت میں محض ایک ’نسل پرستانہ‘ اقدام ہو گی۔

محمد برکہ نے روئٹرز کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ انہیں اس بات پر انتہائی حیرت ہوئی ہے کہ نیتن یاہو پارلیمانی قانون سازی کے نام پر ایسا کوئی ’بنیادی قانون‘ منظور کرانا چاہتے ہیں۔ محمد برکہ کے بقول وہ نیتن یاہو کی سیاست کا طویل عرصے سے بہت قریب سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’میں امن مذاکرات میں نیتن یاہو کے اقدامات کو مسلسل دیکھتا رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ امن نہیں چاہتے۔ لیکن اس مرتبہ وہ اپنے اس بیان کے ساتھ بہت آگے نکل گئے ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں