اسرائیل۔ متحدہ عرب امارات معاہدے پر دستخط 15 ستمبر کو
9 ستمبر 2020
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات اپنے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے والے تاریخی معاہدے پر امریکا میں وائٹ ہاوس میں منعقد ایک تقریب کے دوران 15 ستمبر کو دستخط کریں گے۔
اشتہار
دونوں ملکوں کے اعلی وفود کی قیادت اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان کریں گے۔ شیخ عبداللہ بن زید النہیان ابوظبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید النہیان کے بھائی ہیں۔
امریکی حکام، جنھیں اس معاملے پر عوامی طور پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تقریب یا تو وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان روز گارڈن میں یا پھر موسم کے لحاظ سے اندر ہوگی۔
منگل کے روز اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہونے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انہیں 'متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کی دعوت پر اگلے ہفتے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی تاریخی تقریب میں شرکت کرنے پر فخر محسوس ہو رہا ہے۔‘
متحدہ عرب امارات کی سرکاری خبر رساں ایجنسی وام (WAM) نے تصدیق کی ہے کہ شیخ عبداللہ بن زید وفد کی جانب سے معاہدے پر دستخط کریں گے۔ جب کہ یو اے ای کے عملی حکمراں شیخ محمد بن زید النہیان دستخط کی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ امریکا کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے مشترکہ اعلان میں شیخ محمد بن زید النہیان کا نام تھا۔ انہوں نے 2016 سے امریکا کا دورہ نہیں کیا ہے جب امریکا کے صدارتی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روس کی مداخلت کے متعلق رابرٹ میولر کی رپورٹ میں ان پر بھی انگلی اٹھائی گئی تھی۔ شیخ محمد بن زید کا نام ٹرمپ کے ایک ساتھی اورروسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ایک رابطہ کار کے درمیان 2017 میں سیشلس میں میٹنگ کرانے میں ان کے پراسرار رول کی وجہ سے آیا تھا۔
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے پر دستخط کی یہ تقریب گزشتہ ماہ 13 اگست کو باہمی سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اعلان کے ٹھیک ایک ماہ بعد منعقد ہو گی۔ اس تاریخی معاہدے کو امریکی صدر ٹرمپ کی اہم خارجہ پالیسی کامیابی قرار دیا جارہا ہے اور اس سے انہیں نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کافی مدد مل سکتی ہے، جس میں وہ دوسری مرتبہ عہدے پر فائز ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس معاہدے کے بعد ہی دونوں ممالک کے مابین پہلی براہ راست تجارتی اڑان اور ٹیلیفون روابط کا آغاز ہوا نیز متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی بائیکاٹ کے خاتمے کا بھی اعلان کیا۔ جس سے یو اے ای اور اسرائیل کے مابین تیل، جواہرات، دوا ساز کمپنیوں اور ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپس کی تجارت بحال ہو سکتی ہے۔
متحدہ عرب امارات کو امید ہے کہ اس معاہدے کے بعد اسے ایف 35 اسٹیلتھ لڑاکا طیاروں جیسے جدید امریکی ہتھیار خریدنے کی اجازت مل جائے گی۔
اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے معاہدے کے وقت امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کو انضمام کرنے کے منصوبے کومعطل کرنے پر راضی ہوگیا ہے لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے واضح طورپر کہا تھا کہ انضمام کو معطل کرنے کا فیصلہ 'عارضی‘ ہے۔ فلسطینیوں نے اس معاہدے کو مسترد کردیا ہے۔ ایران اور ترکی سمیت بعض دیگر مسلم ممالک نے بھی اس معاہدے کی شدید نکتہ چینی کی تھی۔
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Nabil
10 تصاویر1 | 10
دوسری جانب بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ امریکی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے علاوہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے متعدد عرب ریاستوں کے ساتھ خفیہ بات چیت جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ'اسرائیلی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے عرب اور مسلمان رہنماؤں کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔‘
دریں اثنا خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسرائیل کے سب سے بڑ ے بینک ہیاولم کے سربراہ ڈوف کوٹلر کی قیادت میں ایک اعلی سطحی وفد متحدہ عرب امارات کے کاروباری دورے پر ہے اور یو اے ا ی کے حکام کے ساتھ باہمی تجارتی امکانات پر تبادلہ خیال کررہا ہے۔
اسرائیلی بینک کے سربراہ نے متحدہ عرب امارات کے پہلے کاروباری دورے کو مستقبل میں وسیع توقعات کے لیے پہلا قدم اور سنگ میل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا”ہمیں یقین ہے کہ بینکوں کے سربراہوں اور معاشی ماہرین کے درمیان براہ راست اور نفیس رابطوں سے براہ راست کاروبار کی راہ ہموار ہوگی۔‘
اسرائیلی حکومت کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے وفد کو بھی حکومت کی جانب سے دورے کی دعوت دی گئی ہے، تاہم فی الحال کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی۔
ج ا / ص ز (اے پی، اے ایف پی)
مزيد فلسطينی علاقہ ضم کرنے کے اسرائيلی منصوبے پر احتجاج