سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ اسرائیل سعودی عرب کا ممکنہ اتحادی ملک ہے جب کہ وہ ایران کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانے کی بھی کوشش میں مصروف ہیں۔
اشتہار
امریکی میگزین دی اٹلانٹک کے دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تنازعہ حل ہو جائے گا۔
یہ انٹرویو جمعرات کے روز دی اٹلانٹک میں شائع ہوا ہے جب کہ آج سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی نے بھی اس کا متن جاری کیا ہے۔ اس انٹرویو میں 36 سالہ ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق بھی بات کی۔ انہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کو "بڑی غلطی" قرار دیا اور کہا کہ ان پر نامناسب طور پر اس قتل کا الزام عائد کیا گیا۔
اسرائیل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، "ہم اسرائیل کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے۔ ہم اسے اپنا ممکنہ اتحادی سمجھتے ہیں تاکہ مشترکہ مفادات کو مل کر حاصل کیا جائے۔ مگر وہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں کچھ مسائل حل کرنا ہوں گے۔"
واضح رہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں، تاہم 2020 میں سعودی عرب کے خلیجی اتحادی ممالک بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات میں بہتری سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ابراہیمی معاہدے کے انیشیوٹیو کے تحت آئی تھی۔ تاہم اسے فلسطینیوں نے "پیٹھ میں چھرا گھونپنے" سے تعبیر کیا تھا۔
یہ بات اہم ہے کہ سعودی عرب مسلسل عرب لیگ کے دہائیوں پرانے موقف کو دہراتا رہا ہے جس کے مطابق جب تک اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ تنازعے کا حل نہیں کرتا، اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں سعودی موقف میں خاصی لچک دیکھی گئی ہے۔ جس میں اسرائیلی پروزوں کے لیے سعودی فضائی حدود کھولنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
سعودی ولی نے عہد نے روایتی حریف ملک ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کہا، "وہ ہمارے ہمسائے میں ہے ۔ ہمشیہ کے لیے ہم سائے۔ ہم ان سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ اس لیے دونوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ ملک کر کام کریں اور بقائے باہمی کی کوشش کریں۔"
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
ان کا مزید کہنا تھا، "امید ہے کہ ہم ایک ایسے نکتے پر پہنچ جائییں گے، جو دونوں ملکوں کے لیے بہتر ہو گا اور جس سے ہمارے ملک اور ایران دونوں کا مستقبل روشن ہو گا۔"
انتہائی قدامت پسند سعودی معاشرے میں ولی عہد محمد بن سلمان متعدد سماجی اصلاحات کا باعث بنے ہیں، جن میں سن 2018 میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے جیسے امور بھی شامل ہیں۔ حالیہ کچھ برسوں میں سعودی عرب میں سیاحت کی صنعت کے فروغ کے لیے تفریحی سرگرمیوں کی بھی اجات دی گئی ہے، جن میں غیرملکی فنکاروں کے کانسرٹس کا انعقاد بھی شامل ہے۔
اس انٹرویو میں سعودی ولی عہد نے ٹی وی سیریز دی گیم آف تھرونز کو اپنا پسندیدہ پروگرام قرار دیا۔