1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل میں اسلحہ رکھنے کے قوانین میں نرمی کا فیصلہ

عدنان اسحاق19 نومبر 2014

اسرائیل نے کہا ہے کہ یروشلم میں یہودی عبادت گاہ پر حملے کا شدید جواب دیا جائے گا۔ اس دوران اسرائیل میں اسلحہ رکھنے کے قانون میں نرمی کیے جانے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

تصویر: Reuters/R. Zvulun

سلامتی کے امور کے اسرائیلی وزیر یتزہاک آرونو وچ نے کہا کہ یہودی عبادت گاہ پر حملوں کے بعد اسلحہ رکھنے کے قوانین میں نرمی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام کا تعلق ذاتی دفاع سے ہے۔ ’’ اگلے گھنٹوں کے دوران قانون میں نرمی کر دی جائے گی۔‘‘ اسرائیلی وزیر نے مزید کہا کہ اس کا اطلاق ان افراد پر ہو گا، جن کے پاس اسلحہ لائسنس ہیں اور اب وہ پولیس اور سلامتی کے دیگر اہلکاروں کی طرح اپنے ساتھ اسلحہ رکھ سکیں گے۔ اس موقع پر انہوں نے بہت سی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ اس تبدیلی کے بعد سلامتی کے اداروں کے اہلکار اُس وقت بھی اپنے ساتھ اسلحہ رکھ سکیں گے، جب وہ ڈیوٹی پر نہیں ہوں گے۔

یتزہاک آرونو وچ کے بقول عبادت کے دوران، جن دو فلسطینیوں نے چار یہودی مذہبی معلمین کو ہلاک کیا ہے، ان کے گھر بھی مسمار کر دیے جائیں گے۔ اس سے قبل کار کے ذریعے راہگیروں کو ہلاک کرنے کی کوشش کرنے والوں کا گھروں کو منہدم کرنے کے احکامات دیے گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیلی حکام کو خبردار کیا ہے کہ وہ حملہ آوروں کے گھروں کو تباہ نہ کریں۔ ان اداروں کے مطابق اس طرح کے اقدامات کشیدگی اور تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں اور یہ شہری قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔ اس دوران اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پانچ ہو گئی ہے۔ حکام نے بتایا کہ زخمی ہونے والا ایک پولیس اہلکار بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔

تصویر: Reuters/A. Awad

دوسری جانب عالمی سطح پر یروشلم میں ہونے والے حملے کی مذمت کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سکیرٹری جنرل بان کی مون نے یروشلم میں اس حملے کے علاوہ فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے مابین دیگر علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے بقول یہ درندگی ہے۔ انہوں نے مزید اسرائیل کو اس وقت دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس جنگ میں فتح اسرائیل کی ہی ہو گی۔ یروشلم میں عبادت کے دوران ہلاک ہونے والے چار یہودی مبلغوں میں سے تین امریکی شہری تھے جبکہ ایک کا تعلق برطانیہ سے تھا اور ان کے پاس اسرائیلی شہریت بھی تھی۔ اس دوران حملہ آوروں کی بھی تصاویر جاری کر دی گئی ہیں۔

2008ء میں یروشلم میں آٹھ طلبہ کو ہلاک کیے جانے کے بعد یہ سب سے خونریز حملہ تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں