اسرائیل بھر میں آج جمعرات کی صبح دوسری عالمی جنگ کے دور میں چھ ملین یہودیوں کے قتل عام کی یاد میں دو منٹ تک سائرن بجائے گئے۔ اس دوران ملک بھر میں تمام تر کاروبار زندگی معطّل رہا۔
اشتہار
اسرائیل میں آج جمعرات کو نازی جرمنوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے چھ ملین یہودیوں کی یاد میں سالانہ دن منایا گیا۔ اس موقع پر دو منٹ تک سائرن بجائے گئے، جس دوران پیدل چلنے والے اور سڑکوں پر موجود ٹریفک رک گیا اور تمام افراد نے اس دوران اپنے سر جھکا لیے۔ گھروں اور دفاتر میں بھی کام روک دیا گیا۔
آج جمعرات کو ہولوکاسٹ میوزیم ’یاد واشم‘ پر پھول چڑھانے کی ایک تقریب بھی منقعد ہوئی، جس میں اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ اس قتل عام میں بچ جانے والے افراد نے بھی شرکت کی۔ ساتھ ہی اسکولوں، کمیونٹی سینٹرز اور فوجی چھاؤنیوں میں بھی مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ پارلیمان میں آج پورے دن اس قتل عام میں مارے جانے والے افراد کے نام زور سے پڑھے جاتے ہیں۔
ہولوکاسٹ میں مارے جانے والوں کی یاد میں یہ سالانہ دن اسرائیل میں بڑے جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ آج ملک بھر میں کیفے، ریستوران اور سیر و تفریح کے مقامات بند ہوتے ہیں۔
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
6 تصاویر1 | 6
ٹیلی وژن اور ریڈیو پر اس قتل عام کے موضوع پر دستاویزی فلمیں دکھائی جاتی ہیں اور بچ جانے والوں کے انٹرویو نشر کیے جاتے ہیں۔ سرکاری عمارات پر اسرائیلی پرچم بھی سرنگوں رہتا ہے۔
عبرانی کیلنڈر کے مطابق ہولوکاسٹ کا یادگاری دن 1943ء میں پولینڈ کے شہر وارسا میں نوجوان یہودیوں کی جانب سے قابض نازی دستوں کے خلاف بغاوت کی برسی کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ اسے دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک مزاحمتی تحریک کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس بغاوت کے دوران تیرہ ہزار یہودی ہلاک ہوئے تھے۔
وارسا میں یہودی بستی کی نازی جرمنی کے خلاف بغاوت
سات عشرے قبل یعنی اپریل 1943ء میں وارسا کے یہودیوں نے نازی فوج کا چار ہفتے تک ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا
تصویر: ddp images/AP Photo
مقبوضہ آبادی کی تلاشی
وارسا پر قابض سابق نازی جرمن فوج کی خفیہ سروس کے مسلح عہدیدار مقامی آبادی کی تلاشی لیتے ہوئے، 19 اپریل کو یہاں کے یہودیوں نے بغاوت کا آغاز کر دیا تھا
تصویر: Getty Images
یہودی بستی پر قبضہ
نازی جرمنی نے 1939ء کے وسط میں پولینڈ پر قبضہ کیا تھا، پولینڈ کے دارالحکومت میں اس وقت قریب ساڑھے تین لاکھ یہودی بستے تھے، جو کسی بھی یورپی شہر میں یہودیوں کی سب سے بڑی تعداد تھی
تصویر: picture-alliance/dpa
معمولات زندگی میں یکسر تبدیلی
یہ سڑک دکھاتی ہے کہ مقبوضہ یہودی بستی ’گیٹو‘ میں معمولات زندگی کس قدر پرسکون تھے، اکتوبر 1940ء میں شہر کی یہودی آبادی کو ہر جگہ سے بے دخل کرکے ایک علاقے میں مقید کر دیا گیا تھا اور ان کے اردگرد تین میٹر اونچی دیوار تعمیر کر دی گئی تھی
تصویر: picture-alliance/dpa
مقبوضہ یہودی علاقوں کو ملانے والا پل
اس تصویر میں مقبوضہ یہودی علاقوں کو ملانے والا پل دیکھا جاسکتا ہے جس کے ذریعے دیگر علاقوں تک رسائی ناممکن تھی، یہاں کے لوگوں سے کھیتوں،کارخانوں یا فوج میں جبری محنت کروائی جاتی تھی
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن قوانین کا نفاذ
مقبوضہ یہودی بستی کے اندر جرمن انتظامی فورس Ordnungsdienst کے عہدیدار انتظامی امور چلاتے تھے۔ بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے یہاں کے یہودیوں کو Judenrat سے رابطہ کرنا پڑتا تھا جو جرمن قوانین کے نفاذ کو یقینی بناتے تھے
تصویر: picture-alliance/akg-images
ناگفتہ حالات زندگی
وارسا کے مقبوضہ یہودی علاقے میں حالات زندگی ویسے ہی ناگفتہ تھے۔ ایسے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سابق نازی فوج نے دیگر مقبوضہ علاقوں سے بھی یہودیوں کو یہاں لانا شروع کر دیا اور یہاں کی آبادی ایک وقت میں چار لاکھ تک پہنچ گئی تھی
تصویر: picture-alliance/dpa
سخت حالات میں مزاحمتی گروہوں کی تشکیل
مقبوضہ یہودی بستی ’گیٹو‘ کے اندر بچوں، خواتین اور بیمار افراد کی حالت دن بہ دن ابتر ہوتی رہی، اگرچہ یہاں کھانے پینے اور ادویات کی شدید قلت تھی تاہم پھر بھی یہودی مزاحمتی گروہ تشکیل پائے
تصویر: picture-alliance/dpa
گیٹو سے قتل گاہوں میں منتقلی
وارسا کے ’گیٹو‘ سے یہودیوں کی ’extermination camps‘ یعنی قتل گاہوں کو منتقلی شروع ہوئی، زیادہ تر لوگوں کو ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر قائم Treblinka کیمپ منتقل کیا گیا، نازی فوج کے انتظامی افسر اور Judenrat کے سربراہ ,Adam Czerniakow نے اس عمل کے دوران بطور احتجاج خودکشی کرلی تھی
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Austrian Archives
جرمن فوج پر فائرنگ
اپریل 1942 میں وارسا گیٹو کو بڑی حد تک خالی کر دیا گیا تھا اور بچ جانے والے یہودی رہائشیوں کو اذیتی مراکز میں منتقل کر دیا گیا تھا جس کے معنی موت کے تھے۔ جب خفیہ فوج SS کے عہدیدار 19 اپریل کو کیمپ میں داخل ہوئی تو یہودی مزاحمت کاروں نے ان پر فائرنگ کی
تصویر: Keystone/Getty Images
بستی کے گھر نذر آتش
جنرل یورگن سٹروپ (بائیں جانب سے تیسرے) کی قیادت میں نازی جرمن فوج SS کو چار ہفتے تک یہودی مزاحمت کاروں کے حملوں کا سامنا رہا، سابقہ نازی فوج نے اپنا کنٹرول یقینی بنانے کے لیے ’گیٹو‘ کے اندر ایک ایک کرکے تمام عمارتوں کو نذر آتش کر دیا
تصویر: picture-alliance/Judaica-Sammlung Richter
مزاحمت دم توڑ گئی
مئی کی 16 تاریخ کو مزاحمت دم توڑ گئی، وارسا کے ’گیٹو‘ میں قریب دس لاکھ لوگوں کو قابض رکھا گیا تھا اور رپورٹوں کے مطابق ان میں سے کچھ ہزار ہی زندہ بچے
تصویر: picture-alliance/dpa
یہودیوں کا نام ونشان مٹانے کی کوشش
وارسا میں یہودیوں کا نام ونشان مٹانے کی غرض سے سابق نازی فوج نے یہاں یہودیوں کی عبادت گاہ کو بھی نذر آتش کر دیا تھا۔ نازی فوج SS کی رپورٹ کے مطابق وارسا میں یہودیوں کی تعداد 56065 تھی۔
تصویر: ullstein bild - Photo12
کچھ ہی لوگ بچ سکے
مزاحمت کو پسپا کر دیا گیا اور ’گیٹو‘ سے لگ بھگ 56 ہزار لوگوں کو بے دخل کر دیا گیا، ان بچ جانے والے افراد کو جبری مشقتی کیمپوں میں بھیج دیا گیا اور محض کچھ ہی کو بعد میں بچایا گیا
تصویر: picture-alliance/AP Images
مظالم کی معافی مانگ لی گئی
سابق جرمن چانسلر ولی برانڈ کی یہ تصویر 1970ء میں دنیا بھر نے دیکھی جب انہوں نے وارسا کے دورے کے وقت ’گیٹو کے ہیروز کی یادگار‘ پر بطور احترام و عقیدت گھٹنے ٹیکے۔، دنیا نے اسے دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمن فوج کی جانب سے کیے گئے مظالم کی معافی سے تعبیر کیا