اسرائیل میں شتر مرغ کے سات ہزار برس پرانے انڈوں کی دریافت
12 جنوری 2023
اسرائیلی ماہرین کو شتر مرغ کے ساڑھے سات ہزار برس پرانے کئی انڈے ملے ہیں۔ اسرائیل میں آثار قدیمہ کے ملکی محکمے کے مطابق ہزاروں برس پرانے ان انڈوں کی تعداد آٹھ ہے اور وہ صحرائے نجف کے علاقے سے ملے۔
اشتہار
تل ابیب سے جمعرات 12 جنوری کو اسرائیل کی آثار قدیمہ کی اتھارٹی کے حوالے سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا کہ یہ انڈے ثابت نہیں بلکہ شتر مرغ کے انڈوں کے چھلکے ہیں، جو ماہرین کو ایک قدیمی آتش دان کے قریب سے ملے۔
شتر مرغ کے انڈوں کے ان چھلکوں کے بارے میں ماہرین کا اندازہ ہے کہ وہ چار ہزار سال سے لے کر ساڑھے سات ہزار سال پرانے ہیں اور اس لیے بہت اچھی حالت میں ہیں کہ وہ بظاہر ہزاروں سال ریتلے ٹیلوں کے نیچے دبے ہوئے پڑے رہے۔
آثار قدیمہ کے اسرائیلی محکمے کے ڈائریکٹر امیر گورزالکزینی کے مطابق انڈوں کے ان چھلکوں کو قدرتی طور پر بہت اچھی حالت میں محفوظ رکھنے میں متعلقہ خطے کے انتہائی خشک موسم نے کلیدی کردار ادا کیا۔
قدیمی خانہ بدوشوں کی زندگی
ماہرین کے مطابق اس دریافت سے ماہرین کو یہ سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی کہ اس خطے میں ہزاروں برس پہلے رہنے والے خانہ بدوش کس طرح کی زندگی گزارتے تھے۔ اس دور میں اس خطے میں شتر مرغ بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔
اس خطے میں ان عظیم الجثہ پرندوں کی اپنے قدرتی ماحول میں پائی جانے والی نسل 19 ویں صدی میں ناپید ہو گئی تھی۔
گورزالکزینی نے بتایا کہ ماضی میں اس حوالے سے ملنے والے قدیمی شواہد کے مطابق مشرق وسطیٰ کے اس خطے میں شتر مرغ کے انڈے انسانی خوراک کے ذریعے کے علاوہ مختلف طرح کی اشیائے تعیش، زیورات اور پانی کے برتن تیار کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔
اشتہار
شتر مرغ کا ایک انڈہ مرغی کے پچیس انڈوں کے برابر
گورزالکزینی نے بتایا کہ صحرائے نجف سے ملنے والے شتر مرغ کے ان آٹھ انڈوں کا آئندہ تفصیلی مطالعہ تو لیبارٹری میں کیا ہی جائے گا، تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ انڈوں کے یہ چھلکے جہاں سے ملے، وہاں وہ ایک خاص ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ شتر مرغ کے ایک انڈے میں اتنی غذائیت ہوتی ہے، جتنی مجموعی طور پر مرغی کے تقریباﹰ 25 انڈوں میں۔
یہ دریافت کتنی اہم ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماہرین کی جس ٹیم نے کھدائی کے دوران انڈوں کے یہ چھلکے دریافت کیے، ان کی سربراہ لارین ڈیوس نے کہا، ''میری رائے میں تو انڈوں کے ان چھلکوں میں سے ہر ایک اپنی اہمیت میں کم از کم بھی اتنا قیمتی ہے، جتنا کہ اس کے وزن کے برابر سونا۔‘‘
اسرائیل، یہ دنیا کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے
اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ نے حال ہی میں ایک انتہائی قدیم مسجد کی باقیات دریافت کی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دریافت اس خطے کی مسیحیت سے اسلام کی طرف منتقلی پر روشنی ڈالتی ہے۔
تصویر: MENAHEM KAHANA/AFP
ایک تاریخی دریافت
اس مسجد کی باقیات اسرائیل کے رحط نامی شہر سے ملی ہیں۔ رحط عربی خانہ بدوشوں کا شہر ہے، جنہیں بدو بھی کہا جاتا ہے۔ یہ باقیات اس شہر میں ایک نئے محلے کی تعمیر کے دوران ملی تھیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ باقیات 12 سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔
تصویر: MENAHEM KAHANA/AFP
مسجد کا ثبوت
ان تاریخی باقیات میں مربع شکل کا ایک کمرہ اور مکہ کی سمت کھڑی ایک دیوار بھی شامل ہیں۔ اس دیوار میں ایک نصف کرّے کا نشان بھی ہے، جو جنوب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسرائیل کے محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق ان منفرد نشانات و آثار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمارت ایک مسجد کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ ماہرہن کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اس وقت اس جگہ پر چند درجن افراد ہی نماز پڑھا کرتے تھے۔
تصویر: MENAHEM KAHANA/AFP
امراء کا علاقہ
مسجد سے کچھ دور ایک ’پرتعش اسٹیٹ بلڈنگ‘ کی باقیات بھی ملی ہیں، جن میں میز اور شیشے کے برتن بھی شامل ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں امیر لوگ رہتے تھے۔ تین سال قبل اسی علاقے سے ایک اور مسجد کی باقیات بھی ملی تھیں۔ وہ مسجد بھی ساتویں سے آٹھویں صدی عیسوی کے دوران تعمیر کی گئی تھی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان دونوں ’مساجد کا شمار دنیا کی قدیم ترین مساجد‘ میں ہوتا ہے۔
تصویر: Gil Cohen Magen/Xinhua/IMAGO
ادوار میں تبدیلی کے گواہ
محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں مساجد، املاک اور قریبی مکانات کی باقیات اس تاریخی تبدیلی پر روشنی ڈالتے ہیں، جو شمالی نجف کے علاقے میں ایک نئے مذہب کے طور پر اسلام کے متعارف کرائے جانے کے بعد عمل میں آئی تھی۔ اس محکمے کے مطابق، ’’ نئے مذہب اور نئی بادشاہت کے ساتھ اس خطے میں بتدریج ایک نئی ثقافت قائم ہوئی، جس نے یہاں سینکڑوں برسوں سے قائم سابقہ بازنطینی حکومت اور مسیحیت کی جگہ لے لی۔‘‘
تصویر: Gil Cohen Magen/Xinhua/IMAGO
ان مقامات کی حفاظت کی جائے گی
اس خطے میں مسلمانوں کو ساتویں صدی کے پہلے نصف حصے میں بہت سی فتوحات ملی تھیں۔ اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ان مقامات کی حفاظت کی جائے گی۔ ان کو یا تو تاریخی یادگاروں یا پھر فعال مساجد میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس تصویر میں اسی جگہ کام کرنے والے مسلمان فلسطینی کارکن نماز ادا کر رہے ہیں۔
تصویر: MENAHEM KAHANA/AFP
5 تصاویر1 | 5
دریافت کی جگہ کی مذہبی اہمیت
جنوبی اسرائیل میں ماہرین کو ہزاروں برس پرانی یہ باقیات صحرائے نجف کے علاقے میں نیتزانا نامی مقام سے کچھ ہی فاصلے پر ملیں، جہاں سے موجودہ مصری ریاست کی سرحد بہت قریب ہے۔
یہ جگہ جغرافیائی طور پر کادیش بارنیا نامی اس نخلستان سے بھی دور نہیں، جس کا مسیحیوں کی مقدس کتاب بائبل میں کئی جگہ ذکر ملتا ہے۔
تاریخی حوالے سے یہ صحرائی نخلستان اپنے بڑے قیمتی آبی وسائل کی وجہ سے بنی اسرائیل کے ان باشندوں کے لیے سفر کے دوران پڑاؤ کا ایک بہت اہم مقام تھا، جو مصر سے کنعان جا رہے تھے۔
م م / ا ا (ڈی پی اے، کے این اے)
ازمنہ فراعین کے حنوط شدہ لاشوں والے درجنوں تابوتوں کی دریافت
مصر میں ماہرین آثار قدیمہ کو فراعین کے دور کے ایسے درجنوں تابوت ملے ہیں، جو آج بھی بہت اچھی حالت میں ہیں۔ جنوبی مصر میں تین ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی حنوط شدہ لاشوں والے یہ تیس تابوت الاقصر میں کھدائی کے دوران ملے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
آثار قدیمہ کا بیش قیمت خزانہ
ہزاروں سال پرانے لکڑی کے یہ تیس تابوت اور ان میں بند حنوط شدہ انسانی لاشیں اب تک تقریباﹰ اپنی اصلی حالت میں ہیں۔ ماہرین ان قدیمی نوادرات کی دریافت کو جدید آرکیالوجی کے لیے انتہائی سنسی خیز واقعات میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔ مصر میں گزشتہ تقریباﹰ سوا سو سال کے دوران یہ اپنی نوعیت کی عظیم ترین دریافت ہے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
تین ہزار سال تک انسانی آنکھوں سے اوجھل
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ان میں سے پہلا تابوت زمین سے صرف ایک میٹر کی گہرائی میں دریافت ہوا اور اس کے بعد جب مزید کھدائی کی گئی، تو وہاں قریب ہی ایک قطار کی صورت میں انتیس دیگر تابوت بھی رکھے ہوئے ملے۔ قدیم انسانی تہذیب کی شاہد یہ باقیات تین ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے تک انسانی آنکھوں سے اوجھل رہیں۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
اگلے سال سے نمائش کے لیے میوزیم میں
یہ نوادرات جنوبی مصر میں آثار قدیمہ کے خزانوں کا عظیم مدفن سمجھے جانے والے علاقے الاقصر میں العساسیف نامی اس قدیمی قبرستان سے ملے، جہاں سے پہلے بھی بہت سے نوادرات مل چکے ہیں۔ قاہرہ حکومت کے مطابق ان نودریافت شدہ نوادرات کو 2020ء میں دوبارہ کھولے جانے والے اور زیادہ بڑے بنا دیے گئے ’گرینڈ ایجِپشن میوزیم‘ میں نمائش کے لیے رکھ دیا جائے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
تاریخی اسرار کو سمجھنے کی کوشش
مصر میں 1898ء کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ ازمنہ قدیم کے اور حنوط شدہ لاشوں والے اتنے زیادہ تابوت اکٹھے ملے ہیں، جو آج بھی حیران کن حد تک اچھی حالت میں ہیں۔ لکڑی کے یہ تابوت ایسے تیار کیے گئے تھے کہ ان کے اندر اور باہر رنگا رنگ نقش و نگار بھی بنے ہیں اور ان پر کھدائی بھی کی گئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
بچوں، کاہن مردوں اور عورتوں کے تابوت
ہزاروں سال قبل یہ تابوت تب انتقال کر جانے والے بچوں اور سماجی طور پر مذہبی رہنماؤں یا کاہنوں کا کردار ادا کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ اسی لیے یہ سب تابوت ایک سائز کے نہیں ہیں۔ ان تابوتوں میں محفوظ حنوط شدہ انسانی لاشوں کا تعلق فرعونوں کے دور کے 22 ویں حکمران خاندان سے ہے، جس کا اقتدار تین ہزار سال سے بھی پہلے شروع ہو گیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
گرینڈ ایجِپشن میوزیم
ان درجنوں نئے نوادرات کو جلد ہی گیزا کے اہرام کے قریب ’گرینڈ ایجِپشن میوزیم‘ میں منتقل کر دیا جائے گا۔ آج کل اس عجائب گھر کو شائقین کے لیے کھولنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ مصر میں دریائے نیل کے کنارے ’بادشاہوں کی وادی‘ کہلانے والے علاقے میں ان تابوتوں کی موجودگی کا علم ہونے کے بعد انہیں کھدائی کر کے زمین سے نکالنے میں تقریباﹰ دو ماہ لگے۔