1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل میں نئی حکومت کی تشکیل اورمشرق وسطی میں قیام امن کی امیدیں

11 فروری 2009

اسرائیل میں عام انتخابات کے بعد ابھی تک واضح نہں ہوسکا کہ آئندہ حکومت کون بنائے گا لیکن دونوں اہم جماعتیں اپنی اپنی جیت کا اعلان کر چکی ہیں۔ اس مرتبہ دائیں بازو کی جماعتیں بھی بھرپور طریقے سے ابھر کر سامنے آئیں ہیں۔

اسرائیل میں حکومت سازی کون کرے گا ابھی تک واضح نہیں ہو سکا

اسرائیل میں عام انتخابات کے حتمی نتائج کچھ دنوں میں سامنے آجائیں گے تاہم تقریبا تمام ووٹوں کی گنتی کاعمل مکمل ہو چکا ہے اورغیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق ابھی تک کوئی بھی واحد سیاسی پارٹی نہ صرف واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ کوئی بھی پارٹی اکیلےحکومت سازی بھی نہں کر سکتی۔ اس صورتحال میں صدرشعمون پیریز کے پاس استحقاق ہے کہ وہ حکومت سازی کے لئے پہلا موقع کس جماعت کو دیتے ہیں۔ متوقع طور پر اسرائیلی صدر آئندہ ہفتے کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کے ساتھ ملاقات کریں گے اور ان کی تجاویز کے تناظر میں کسی ایک سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کے لئے موقع دیں گے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ اور قدیمہ پارٹی کی سربراہ زپی لیونی حکومت سازی کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیںتصویر: AP

غیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق اعتدال پسند حکمران جماعت قدیمہ نے پارلیمان کی کل 120 نشستوں میں سے اٹھائیس پر کامیابی حاصل کی جبکہ حزب اختلاف لیکوڈ پارٹی ستائیس نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں ایک اہم جماعت بن کرابھری۔ سن دو ہزارچھ کےانتخابات میں لیکوڈ پارٹی کو صرف بارہ نشستوں پرکامیابی ہو سکی تھی جبکہ قدیمہ پارٹی نے انتیس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

اس مرتبہ انتخابات میں تیسرے نمبر پر الٹرا نیشلنسٹ پارٹی آئی جبکہ چوتھے نمبر پر وزیر دفاع ایہود باراک کی لیبر پارٹی ہے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ اور اعتدال پسند جماعت قدیمہ پارٹی کی سربراہ زپی لیونی نے کہا ہے کہ وہ حکومت سازی کریں گے اور اس کے لئے انہوں نے حزب اختلاف رہنما بنیامین نیتن یاہو کو دعوت بھی دی ہے تاہم دوسری طرف دائیں بازو کی لیکوڈ پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ وہ اسرائیلی قوم کی تمام طاقتوں کو متحد کر تے ہوئے اسرائیل کی قیادت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسرائیل کے آئندہ وزیر اعظم ہوں گے کیونکہ نیشنلسٹ کیمپ کی برتری واضح ہے۔ واضح رہے کہ دائیں بازو کے دھڑے سے تعلق رکھنے والی قوم پسند جماعتوں کے اتحاد نے کل 64 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔

موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کی ساٹھ سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی سیاسی جماعت قدیمہ حزب اختلاف پینچوں پر بیٹھے گی۔ کیونکہ حکومت سازی کے دعووں کے باوجود قدیمہ پارٹی کو حکومت سازی میں مشکلات درپش ہیں۔

لیکوڈ پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم بین یامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے آئندہ وزیر اعظم ہوں گےتصویر: AP

اسرائیل میں دائیں بازو کی جماعتوں کی کامیابی کے بعد عمومی خیال کیا جا رہا ہے کہ مشرق وسطی میں قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسرائیل کے ہمسایہ ملک لبنان میں حکمران اکثریت کے سربراہ سعد حریری نے کہا ہے کہ اسرائیل میں دائیں بازو کی جماعتوں کی جیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل امن نہیں چاہتا اور قیام امن کی کوششوں میں داخل ہونے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔

اسرائیلی آئین کے مطابق انتخابات کے نتائج کے حتمی اعلان کے بعد بیالیس دنوں کے اندر اندر حکومت سازی کا عمل مکمل ہو جانا چاہئے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمروٹ پر بدعنوانی کے الزامات عائد کئے تھے اور نتیجتنا المروٹ نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا جس کے بعد قدیمہ پارٹی کو ہی موقع ملا تھا کہ قبل از وقت انتخابات سے بچنے کے لئے وہ از سر نو حکومت سازی کرے لیکن زپی لیونی کی قیادت اس وقت مخلوط حکومت سازی میں ناکام رہی تھی جس کے بعد دس فروری کوملک میں قبل از وقت انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں