Israel Christen
25 فروری 2012ا س سے قبل اسرائیل میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہودیی یا تو مسلمانوں کو نشانہ بناتے تھے یا ان کا ہدف بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد ہوا کرتے تھے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اسرائیل اور غرب اردن میں دس مساجد کو نذز آتش کیا گیا۔ امن کے لیے سرگرم ’پیس ناؤ‘ نامی تنظیم کے خلاف دیواروں پر نعرے لکھ کر انہیں ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ تاہم اب یہ تمام حربے اسرائیل میں آباد مسیحی برادری کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں۔ دائیں بازو کے انتہا پسند یہودیوں نے فروری کے وسط میں مغربی یروم شلم میں ایک بیپٹسٹ چرچ، شہر کے قدیم یہودی علاقے کے ایک کرسچن قبرستان اور اسی طرح فروری میں ہی ایک اورتھوڈوکس کلوسٹر کی دیواروں پر اسپرے پینٹ کے ذریعے مسیحیت کے خلاف نعرے درج کیے۔
پولیس کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ عام سی غنڈہ گردی ہےاور ان کارروائیوں کا نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے بقول نہ ہی ان واقعات کا محرک قوم پرستی ہے۔ اسرائیل کے صدر شمعون پیریز کا اس حوالے سے کہنا تھا ’’ میں تینوں توحیدی مذاہب سے کہنا چاہتا ہو کہ اسرائیل میں مسلمانوں، کرسچنز اور یہودیوں کے مذہبی مقامات اور ان کے رسم و رواج کا احترام کیا جائے۔ Temple Mount یعنی الحرم القدسی الشریف کی حفاظت کی جاتی ہے۔ یہ تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس ہے‘‘۔ پیریز نے مزید کہا ’’جو مسلمانوں کے لیے مقدس ہے، وہ ہمارے لیے مقدس ہے، جو مقام کرسچنز کے لیے مقدس ہیں، وہ ہمارے لیے بھی ہیں اور جو کچھ ہمارے لیے مقدس ہے وہ یقینی طور پر سب کے لیے مقدس ہے۔‘‘
لیکن اس طرح کے بیانات یروشلم میں آباد مسیحیوں کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اسرائیل کے دارالحکومت میں انہیں آئے دن امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قوم پرست اورانتہائی قدامت پسند یہودیوں کی جانب سےشہر کے قدیم حصے کے تنگ گلیوں میں مسیحی مذہبی شخصیات پر تھوکنا ایک عام سی بات ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے پادریوں نے اپنے راستے تبدیل کر لیے ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک امریکی تنظیم ’ اینٹی ڈیفیمیشن لیگ‘ نے رابیوں کے سربراہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تھوکنے کے ان حملوں کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ تاہم ابھی تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔
اس دوران رابی شلومو آمار اور یونا میٹزگر یروشلم میں مسیحی باشندوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے ان سے ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ دو سال قبل غرب اردن کے ایک گاؤں یوسف میں مسجد کو نذر آتش کر دیا گیا تھا، جس کے بعد میٹزگر نے اس علاقہ کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا، ’’وہ اپنے پڑوسیوں کو یہ بتانے آئے ہیں کہ ہر مقدس جگہ، جہاں انسان عبادت کرتے ہیں، چاہے وہ مسجد ہو، چرچ ہو یا سینیگوگ ہو، وہ اسے نذر آتش کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘ تاہم دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قدامت پسند اور انتہا پسند یہودیوں نے ابھی تک رابی یونا میٹزگر کی اپیل پر کان نہیں دھرے۔
رپورٹ: سیباستیان اینگلبریشٹ/ عدنان اسحاق
ادارت: شامل شمس