اسرائیل میں یہودی ریاست کا قانون نسل پرستانہ ہے، ایردوآن
24 جولائی 2018
ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے یہودی قوم کی ریاست کے قانون کی منظوری پر تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے اس قانون سازی کو نسلی تعصب پر مبنی قرار دیا ہے۔
اشتہار
اپنے اس بیان میں ترک صدر نے اسرائیل کو ایک فاشسٹ ریاست قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ وہاں ایڈولف ہٹلر کی روح بیدار ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ایردوآن کا یہ بیان گزشتہ ہفتے کے دوران اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ سے منظور ہونے والے اُس قانون کے تناظر میں ہے، جس میں اسرائیل کو ایک یہودی ریاست قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت عربی زیان کے درجے کو بھی کم تر کر دیا گیا ہے۔
ترک پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی جماعت جسٹس ایڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے اراکین سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ اس وقت اسرائیلی ریاست صیہونیت نواز فاشسٹ اور نسل پرستانہ ملک بن گیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل میں منظور ہونے والے قانون کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرے۔
اپنی تقریر میں ترک صدر نے واضح کیا کہ یہ قانون منظور کروا کر اسرائیلی حکومت نے اپنی حقیقی خواہشات کو آشکارا کرتے ہوئے تمام غیرقانونی اور خلاف ضابطہ اقدامات کے علاوہ جبر کی پالیسی کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ اسرائیلی حکومتی اقدامات ہٹلر کے آریائی نسل کے خبط کے مساوی ہیں
ترک صدر کے بیان پر اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے جوابی ردٍ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ترکی میں سیاہ آمریت کا نفاذ ہو رہا ہے۔ نیتن یاہو کے مطابق ایردوآن جس طرح شامی اور کردوں کا قتل عام کرنے ساتھ ساتھ ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈال چکے ہیں، یہ اُن کی سیاہ آمریت کی علامت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل میں یہودی ریاست کے قانون کی منظوری کے بعد بھی تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔
اسرائیلی پارلیمنٹ میں ’نیشن اسٹیٹ‘ کے بل کی منظوری کے پیچھے قدامت پسند اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں تھیں۔ اس بل کی منظوری پر بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ صیہونیت کی تاریخ کا یہ سنگ میل ہے اور اس نے اسرائیل کو ایک نئی ریاستی تعریف بخشی ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف نے اس بل کی منظوری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی وجہ سے دو ریاستی حل کا معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔