اسرائیل نے آباد کاری کے متنازعہ قانون کی منظوری دے دی
7 فروری 2017اسرائیلی پارلیمان نے اس نئے متنازعہ قانون کو منظور کر لیا ہے، جس کے تحت مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کے گھروں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ منگل سات فروری کے روز ایک سو بیس قانون سازوں میں سے ساٹھ نے اس متنازعہ قانون کے حق میں ووٹ دیے جبکہ باون نے اس کی مخالفت کی۔ اس طرح مغربی اردن کے مقبوضہ علاقے میں تقریباً چار ہزار اسرائیلی گھروں کو قانونی حیثیت فراہم کر دی گئی ہے۔ یہ اسرائیلی گھر فلسطینیوں کی نجی زمینوں پر بنائے گئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے فلسطینی زمین کے نجی مالکان کو رقم بھی ادا کی جائے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد سے اسرائیل پانچ ہزار نئے یہودی آباد کار گھروں کی تعمیر کا اعلان بھی کر چکا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو پارلیمان میں ہونے والی ووٹنگ کے وقت وہاں موجود نہیں تھے کیوں کہ وہ اپنے دورہ برطانیہ سے واپس لوٹ رہے تھے۔ تاہم ان کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’میں نے امریکی انتظامیہ کو اس سے آگاہ کر دیا تھا تاکہ ہمارے دوستوں کو کوئی تعجب نہ ہو۔‘‘
قانون کو حتمی شکل دینے کے بعد اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کی جیوش ہوم پارٹی کے بیزلیل سموٹرش کا کہنا تھا، ’’امریکی شہریوں کا شکریہ جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر منتخب کیا، جن کے بغیر شاید یہ قانون پاس نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘
یہودی آباد کاری پر جرمن چانسلر کے شدید تحفظات
قبل ازیں وزیراعظم نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر Ofir Akunis نے بائبل کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا، ’’مغربی کنارے سمیت اسرائیل کی تمام سرزمین کا تعلق یہودیوں سے ہے۔ یہ حق ابدی اور ناقابل تردید ہے۔‘‘
نئے قانون کی مذمت
فلسطینی حکام کی طرف سے اس پیش رفت کو ’’قانونی چوری‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے، ’’اسرائیلی حکومت مسئلے کے ہر حل کو تباہ کر دینا چاہتی ہے۔‘‘
دوسری جانب ترکی نے بھی اسرائیلی پارلیمان کی طرف سے منظور کیے گئے اس نئے قانون کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ترک وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ترکی اس اسرائیلی قانون کی شدید مذمت کرتا ہے، جو فلسطینیوں کی نجی زمین پر چار ہزار رہائشی یونٹوں کی تعمیر کو جائز قرار دیتا ہے۔ انقرہ حکومت کے مطابق اس طرح اسرائیل کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور ’’دو ریاستی حل‘‘ کی بنیاد کو تباہ کیا جا رہا ہے۔