اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ جنوبی اسرائیل میں غزہ سے ہونے والے ''آتشی غباروں '' کے حملوں کا جواب دے رہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے بعد سے یہ اسرائیل کی پہلی بڑی عسکری کارروائی ہے۔
اشتہار
فلسطین میں حماس گروپ سے وابستہ بعض میڈیا اداروں کی اطلاعات کے مطابق 16 جون بدھ کی علی الصبح اسرائیلی فوج نے اپنے فضائی حملوں میں حماس کے تربیتی کیمپوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ابھی تک ان حملوں میں ہلاکتوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
گزشتہ ماہ حماس اور اسرائیلی فوج کے درمیان ہونے والی گیار روزہ لڑائی کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا، جس کے بعد سے غزہ پر فضائی بمباری کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ مئی کے مہینے میں ہونے والی محدود پیمانے کی جنگ میں درجنوں کم سن بچوں اور خواتین سمیت تقریباً ڈھائی سو فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جبکہ 13 افراد اسرائیل میں مارے گئے تھے۔
تازہ حملوں کے بارے میں اسرائیل کا کیا کہنا ہے؟
اسرائیلی دفاعی فورسز نے اپنے ایک بیان میں ان تازہ فضائی حملوں کی تصدیق کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ غزہ سے اسرائیلی سر زمین میں آتشی غبارے بھیجے جا رہے ہیں جس کے جواب میں فضائیہ نے حماس کے فوجی کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایسے آتشی غباروں کی آمد سے جنوبی اسرائیل میں غزہ سے متصل سرحد پر بسنے والی بیس کمیونٹیز میں آگ لگنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔
اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ترجمان ایوشے ادارئی نے اپنی ایک ٹویٹ میں فضائی حملوں کا ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ شہر اور خان یونس کے جنوبی علاقے میں، ''شدت پسندوں کے کارندوں کو میٹنگ اور دیگر سہولیات فراہم کرنے والے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔''
اسرائیل میں اتوار کے روز ہی دائیں بازو کے سخت گیر رہنما نیفتالی بینیٹ کی نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے اور ان حکومت کی جانب سے
غزہ پر یہ پہلی فوجی کارروائی ہے۔ بینیٹ نے اس سے پہلے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ غزہ سے آنے والے آتشی غباروں کے جواب میں فوج کو اور زیادہ طاقت سے جواب دینے کی ضرورت ہے۔
اشتہار
یروشلم مارچ سے کشیدگی میں اضافہ
غزہ پر فضائی بمباری کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب منگل کے روز ہی سخت گیر اور دائیں بازو کے انتہا پسند یہودیوں نے مشرقی یروشلم میں عربوں کی گھنی آبادی والے علاقوں سے متنازعہ مارچ نکالا۔ اس مارچ سے فلسطینی عربوں میں ایک بار پھر سے زبردست غم و غصہ کی لہر پھیل گئی ہے۔
اسرائیل نے سن 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ کے دوران مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا اور اسی کی یاد میں یہ پریڈ نکالی کی جاتی ہے۔ اس موقع پر سخت گیر قوم پرست یہودی فخریہ پریڈ کا اہتمام کرتے ہیں اور یہ پریڈ شہر کے ان قدیمی علاقوں سے گزرتی ہے جہاں زیادہ تر مسلمان بستے ہیں۔
مارچ کے دوران سینکڑوں یہودی نوجوان اسرائیلی پرچم لے کر دمشق گیٹ سمیت مسلم آبادی سے گزرتے ہیں۔ اس دوران مارچ کے شرکاء اسرائیلی فوج کی شجاعت اور حب الوطنی کے نغمے بھی گاتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی اس مارچ میں حصہ لینے والے نوجوان یہودیوں نے عربوں کے خلاف نعرے بازی کی جس کی اسرائیل کی حکومت نے مذمت کی ہے۔
اسرائیل کے نئے وزیر خارجہ یائر لیپید نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جو لوگ نسل پرستانہ نعرے بازی کرتے ہیں وہ، ''اسرائیلی عوام کی بدنامی کا ذریعہ ہیں۔''
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، 'حقیقت یہ ہے کہ ایسے انتہا پسند بھی ہیں جن کا اسرائیلی پرچم نفرت اور نسل پرستی کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہ مکروہ اور ناقابل معافی فعل ہے۔''
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)
اسرائیل فلسطین تنازعہ، دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اسرائیل اور فلسطین حالیہ تاریخ کے بدترین تنازعہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی پر فضائی بمباری اور حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل میں راکٹ داغنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک نظر اس تنازعہ پر
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
اسرائیل پر راکٹ داغے گئے
دس مئی کو حماس کی جانب سے مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل پر راکٹ داغے گئے۔ اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی میں غزہ پر بھاری بمباری کی گئی۔ تشدد کا یہ سلسلہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں اور اسرائیلی سکیورٹی فروسزکے درمیان تصادم کے بعد شروع ہوا۔
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
تل ابیب میں راکٹ داغے گئے
گیارہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مرکز میں بمباری کی گئی جوابی کارروائی کرتے ہوئے حماس کی جانب سے تل ابیب میں راکٹ داغے گئے۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
فرقہ وارانہ تشدد
اگلے روز اسرائیل میں فلسطینی اور یہودی آبادیوں میں تناؤ اور کشیدگی کی رپورٹیں آنا شروع ہوئی۔ اور فرقہ وارانہ تشدد کے باعث ایک اسرائیلی شہری ہلاک ہوگیا۔ پولیس کی جانب سے تل ابیب کے ایک قریبی علاقے میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ پولیس نے چار سو سے زائد عرب اور یہودی افراد کو حراست میں لے لیا۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
ہنگامی اجلاس
بارہ مئی کو روس کی جانب سے یورپی یونین، امریکا اور اقوم متحدہ کے اراکین کے ساتھ اس بگڑتی صورتحال پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔
تصویر: Ahmad gharabli/AFP
جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات
تیرہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کی سرحد کے پاس جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات کر دیے گئے۔ اگلے روز اسرائیل کے زیر انتظام مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپوں میں گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: Mussa Qawasma/REUTERS
مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری
پندرہ مئی کو غزہ میں قائم مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری سے ایک ہی خاندان کے دس افراد ہلاک ہو گئے۔ کچھ ہی گھنٹوں پر اسرائیلی نے بمباری کرتے ہوہے ایک ایسی عمارت کو مسمار کر دیا گیا جس میں صحافتی ادارے الجزیرہ اور اے پی کے دفاتر تھے۔ اس عمارت میں کئی خاندان بھی رہائش پذیر تھے۔ بمباری سے ایک گھنٹہ قبل اسرائیل نے عمارت میں موجود افراد کو خبردار کر دیا تھا۔
تصویر: Mohammed Salem/REUTERS
حماس کے رہنماؤں کے گھروں پر بمباری
اگلے روز اسرائیل کی جانب سے حماس کے مختلف رہنماؤں کے گھروں پر بمباری کی گئی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں بیالیس فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے سکریڑی جنرل کی جانب سے اس تنازعہ کو فوری طور پر ختم کیے جانے کی اپیل کی گئی۔
تصویر: Mahmud Hams/AFP
'اسلامک اسٹیٹ' کا ایک کمانڈر ہلاک
سترہ مئی کو دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ' کی جانب سے کہا گیا کہ اسرائیلی بمباری میں ان کا ایک کمانڈر ہلاک ہو گیا ہے۔ دوسری جانب اقرام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکا کی جانب سے تیسری مرتبہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ پر اس مشترکہ بیان کو روک دیا گیا جس میں تشدد کے خاتمے اور شہریوں کو تحفظ پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تصویر: Said Khatib/AFP
دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اس حالیہ تنازعہ میں اب تک دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے قریب ساٹھ بچے ہیں۔ تیرہ سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
تصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images
تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے ہیں جن کے باعث ایک بچے سمیت دس اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔
ب ج، ا ا (اے ایف پی)