اسرائیل نے غزہ پٹی کی واحد سرحدی گزر گاہ بند کر دی
19 اگست 2018
اسرائیل نے غزہ پٹی سے ملحق واحد سرحدی گزر گاہ کو بند کر دیا ہے۔ جمعے کو ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب صرف ہنگامی صورتحال ہی میں کسی فلسطینی کو سرحد عبور کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اسرائیلی حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتوار کے دن غزہ پٹی سے ملحق واحد سرحدی گزر گاہ کو بند کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اب صرف ہنگامی صورتحال ہی میں کسی فلسطینی کے لیے یہ راستہ کھولا جائے گا۔
اسرائیلی وزیر دفاع ایوگڈور لیبرمان نے صحافیوں کو بتایا کہ جمعے کے دن اس گزرگارہ پر رونما ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد اس سرحدی راستے کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس پیشرفت کے نتیجے میں اب غزہ پٹی میں موجود فلسطینی عید کی چھٹیوں کے دوران سفر کے قابل نہیں رہیں گے۔ اسرائیلی حکام نے اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی کہ اس راستے کو دوباہ کب کھولا جائے گا۔ جمعے کے دن ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں اسرائیلی فائرنگ کی وجہ سے دو فلسطینی ہلاک بھی ہو گئے تھے۔
اسرائیلی فوج نے بتایا ہے کہ جمعے کے دن فلسطینی مظاہرین نے فائر بموں کا استعمال بھی کیا اور متعدد فلسطینی کچھ دیر کے لیے اسرائیلی علاقوں میں داخل ہونے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ تاہم اسرائیلی دفاعی افواج نے فوری کارروائی کرتے ہوئے انہیں واپس غزہ پٹی کی طرف دھکیل دیا۔ اس واقعے میں کوئی اسرائیلی فوجی زخمی یا ہلاک نہیں ہوا۔
اسرائیلی حکومت نے غزہ پٹی سے ملحق اس واحد سرحدی گزر گاہ کو ایک ایسے وقت میں بند کیا ہے، جب مصر اور اقوام متحدہ کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے مابین ایک طویل المدت سیز فائر ڈیل کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ مصری حکومت نے بھی غزہ پٹی سے ملحق رفاہ نامی اپنی سرحدی گزر گاہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ اسرائیل نے غزہ پٹی کی سرحدی گزر گاہ بند کر دی ہے اور اب صرف ہنگامی صورتحال میں ہی کسی کو یہ سرحد عبور کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اسرائیل نے ایک دہائی سے بھی زائد عرصے سے غزہ پٹی کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ سن دو ہزار آٹھ سے اب تک حماس اور اسرائیلی تین جنگیں بھی لڑ چکیں ہیں۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
غزہ پٹی ميں دو نوجوان لڑکياں ’انسٹاگرام‘ کی مدد سے دنيا کو اپنے علاقے کا ايک ايسا رخ دکھانے کی کوششوں ميں ہيں، جو اس علاقے کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثرات کے بالکل مختلف ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔