اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کی تفتیش مسترد کر دی
9 اپریل 2021
اسرائیل نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے یہ کہتے ہوئے تعاون نہ کرنے کی تصدیق کی ہے کہ اسے اسرائیلی حکام کے خلاف تفتیش کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
اشتہار
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے آٹھ اپریل جمعرات کے روز کہا ہے کہ ان کی حکومت فلسطینی علاقوں میں ہونے والے ممکنہ جنگی جرائم سے متعلق بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے تحقیقات میں تعاون نہیں کرے گی۔
نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہیگ میں واقع اس عالمی عدالت کو اسرائیل کے خلاف، ''تحقیقات شروع کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔''
اس بیا ن کے مطابق، ''اسرائیل قانون کی حکمرانی کا پابند ہے اور وہ اپنے خلاف کسی بھی ذرائع سے عائد کیے جانے والے الزامات کی خود تحقیقات جاری رکھے گا، اور اسے امید ہے کہ ٹریبونل اسرائیل کے اختیارات اور اس کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے سے باز رہے گا۔''
اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کو جمعے کے روز ایک با ضابطہ خط لکھ کر اپنے اعتراضات سے اسے آگاہ کرے گا۔ بدھ کے روز نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں عدالت کے فیصلے کو ''مضحکہ خیز'' بتایا تھا۔
غزہ کے شہریوں پر ٹوٹتی قیامت
اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف دو ہفتے سے جاری کارروائی میں اب تک بڑی تعداد میں بچوں اور خواتین سمیت سینکڑوں فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: DW/Shawgy el Farra
غزہ کے شہریوں کی بے بسی
مسلسل حملوں کے نتیجے میں غزہ کے اندر پورا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ غزہ کا ستر فیصد علاقہ بجلی سے محروم ہے جبکہ صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ بھی سنگین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ غزہ کے بے بس باسیوں کے پاس سوائے اپنے عزیزوں کی موت پر رونے کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
تصویر: DW/Shawgy el Farra
اپنے پیاروں کی موت پر نوحہ کناں
غزہ پٹی کے جنوبی علاقے رفاہ میں اسرائیلی شیلنگ میں مارے جانے افراد کے قریبی عزیز اُن کی موت پر آنسو بہا رہے ہیں۔ اسرائیلی ٹینکوں کی گولہ باری کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے بھی حماس کے ٹھکانوں پر بمباری جاری ہے۔
تصویر: Reuters
اپنے وطن میں در بدر
اسرائیلی آپریشن کے نتیجے میں غزہ کے شمالی حصے سے ہزارہا فلسطینی شہریوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد نے مختلف اسکولوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے فراہم کیے گئے مراکز میں پناہ لے رکھی ہے۔
تصویر: DW/Shawgy el Farra
معصوم آنکھوں میں لرزتا خوف
ایک فلسطینی لڑکا اپنے گھر کا کچھ بچا کھچا سامان لیے ایک ایسے گھر کے پاس سے گزر رہا ہے، جو پولیس کے مطابق اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ایک فضائی حملے میں تباہ ہو گیا تھا۔ عالی سطح پر فائر بندی کی اپیلوں کے باوجود فلسطینی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور مرنے والوں کی تعداد پانچ سو سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔
تصویر: Reuters
آگ اگلتی اسرائیلی توپیں
غزہ پٹی کے ساتھ ملنے والی اسرائیلی سرحد کے قریب ایک اسرائیلی توپ خانے سے 155 ملی میٹر کے گولے غزہ میں عسکریت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں کی جانب پھینکے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ شہریوں کو پہلے سے مطلع کر دیا گیا تھا کہ وہ غزہ کے شمالی علاقے خالی کر دیں جبکہ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی کا کوئی بھی مقام اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔
تصویر: J.Guez/AFP/Getty Images
زیر زمین سرنگوں کے خلاف زمینی آپریشن
اسرائیلی ٹینک غزہ پٹی کے شمالی حصے میں سرگرم عمل نظر آ رہے ہیں۔ غزہ کے خلاف زمینی آپریشن شروع کرنے والے اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر ایسی زیر زمین سرنگوں کو نشانہ بنا رہا ہے، جو حماس کے جنگجوؤں نے بنا رکھی ہیں اور جن کے راستے یہ جنگجو زمین کے اندر سے سرحد پار کر کے اسرائیلی سرزمین تک بھی جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters
’کس سے منصفی چاہیں‘
ایک فلسطینی خاتون اپنے قریبی عزیزوں کے ایک گھر کے ملبے کے پاس بیٹھی بین کر رہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خان یونس مہاجر کیمپ کے قریب واقع یہ مکان اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں تباہ ہو گیا تھا۔
تصویر: Reuters
’کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے؟‘
ایک فلسطینی شہری اپنے تباہ شُدہ مکان کے ملبے میں سے ایک میٹریس نکال کر باہر لا رہا ہے۔ یہ مکان غزہ پٹی کے جنوبی حصے کے علاقے خان یونس میں واقع تھا۔ دو ہفتوں سے جاری اسرائیلی حملوں کی شدت میں سرِ دست کسی کمی کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
پناہ کی تلاش میں
غزہ کے مشرقی علاقے شجائیہ کے باسیوں کے لیے اتوار بیس جولائی کا دن انتہائی خونریز ثابت ہوا۔ اُس روز اسرائیل کی جانب سے اس علاقے پر شدید گولہ باری کے بعد سڑکوں پر لاشیں ہی لاشیں نظر آ رہی تھیں۔ اس کے بعد وہاں کے رہائشی افراتفری میں اپنے بچوں کو لے کر محفوظ مقامات کی طرف دوڑ پڑے۔ شدید گولہ باری کی وجہ سے ایمبولینسیں بھی سرحد کے قریب واقع مقامات پر پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے نہ جا سکیں۔
تصویر: M.Abed/AFP/Getty Images
کھنڈرات کے بیچوں بیچ
دو ہفتوں سے جاری اسرائیلی آپریشن نے غزہ پٹی کے کئی مقامات کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان کا سامنا عام شہریوں کو کرنا پڑا ہے تاہم اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس اور دیگر جہادی گروپ ان فلسطینی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے رہے اور یہ کہ ان شہریوں کو اسلحے کے زور پر جنگجوؤں کے ٹھکانوں اور عسکری مراکز کے قریب پکڑ کر رکھا گیا۔
تصویر: DW/Shawgy el Farra
10 تصاویر1 | 10
آئی سی سی کن امور کی تحقیقات کر رہی ہے؟
اسرائیل نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کو نہ تو کبھی تسلیم کیا اور نہ ہی وہ اس کا رکن نہیں ہے اس لیے اس کا موقف یہ ہے کہ عدالت کو ان کیسز کی سماعت کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چونکہ فلسطین کوئی خود مختار ریاست نہیں ہے اس لیے وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔
لیکن ہیگ میں واقع بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کا کہنا ہے کہ چونکہ سن دو ہزار پندرہ کے ایک معاہدے کے تحت اقوام متحدہ
نے فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے اس لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت کو اس کے کیسز کی سماعت کا اختیار ہے۔
آئی سی سی کا موقف ہے کہ سن 1967 کی جنگ کے بعد جن فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے، وہ علاقے اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور ایسے علاقوں سے متعلق بین الاقوامی فوجداری عدالت تحقیقات کر سکتی ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کی وکیل فاتو بن سوڈا کا کہنا ہے کہ سن 2014 کے دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج نے جو کارروائیاں کی تھیں، اس سے متعلق جنگی جرائم کی تحقیقات کی 'معقول بنیاد‘ موجود ہے۔انہوں نے اس کے لیے اسرائیلی فوج اور فلسطینی حماس گروپ کو ممکنہ ذمہ دار بتایا تھا۔
سن 2014 میں اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان ہونے والی لڑائی میں 2251 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جس میں سے 1462 عام شہری تھے۔ اس لڑائی میں 67 اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے۔
2014ء: مشرق وسطیٰ کے لیے ناقابل فراموش سال
شام کی خانہ جنگی، اسلامک اسٹیٹ کا پھیلاؤ اور غزہ جنگ۔ رواں برس مشرق وسطیٰ میں پیش آنے والے واقعات نے پوری دنیا کے میڈیا کی توجہ حاصل کی اور مسلسل شہ سرخیوں کا سبب بنے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
آئی ایس کی پیش قدمی
انتہا پسند تنظیم آئی ایس 2013ء ہی میں شام کے شہر رقعہ میں اپنے قدم جما چکی تھی۔ جنوری میں یہ تنظیم عراقی شہر فلوجہ پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اب یہ تنظیم عراقی صوبہ انبار تک پہنچ چکی ہے اور بغداد پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters
ایران کا جوہری تنازعہ
ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بعد جنوری میں امریکا اور یورپی یونین نے تہران حکومت کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کا اعلان کیا تھا۔ کئی معاملات پر اتفاق کے باوجود مغربی ممالک اور ایران نتیجہ خیز مذاکرات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ مذاکرات آئندہ برس بھی جاری رہیں گے۔
تصویر: Kazem Ghane/AFP/Getty Images
مصر میں بڑے پیمانے پر سزائیں
رواں برس مصری عدلیہ نے ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعت اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ سنایا۔ اس کے فوراﹰ بعد اخوان المسلمون کے 529 کارکنوں کو سزائے موت سنا دی گئی۔ اسی طرح اپریل میں ایک اور عدالتی فیصلے کے تحت مزید 683 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔ بعدازاں ان میں سے زیادہ تر کی سزائیں عمر قید میں تبدیل کر دی گئیں۔
تصویر: Ahmed Gamil/AFP/Getty Images
عراق میں اقتدار کی تبدیلی
عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد پہلی مرتبہ اپریل میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اگست میں نوری المالکی کی جگہ انہی کی جماعت کے حیدر العبادی نے سنبھالی۔ المالکی کی حکومت میں ملک کے سُنیوں اور شیعیوں کے مابین اختلافات عروج پر پہنچ گئے تھے۔
تصویر: Reuters/Hadi Mizban
شام کی خانہ جنگی
امن کے لیے مسلسل دو برس کوششیں کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی لخضر براہیمی نے مئی میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے فوراﹰ بعد صدر بشار الاسد نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا اور انہیں تقریباﹰ 89 فیصد ووٹ ملنے کی تصدیق کی گئی۔ تاہم ووٹ صرف انہی علاقوں میں ڈالے گئے، جو حکومتی فوجیوں کے زیر کنٹرول تھے۔
تصویر: Reuters
مصر میں فوج کی واپسی
سابق آرمی چیف عبد الفتاح السیسی نے صدارتی انتخابات بڑی اکثریت کے ساتھ جیتنے کا دعویٰ کیا۔ ان کے واحد حریف امیدوار حمدین صباحی کو صرف تین فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ جون میں السیسی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ مصر کے پہلے جمہوری اور معزول صدر محمد مرسی ابھی تک جیل میں قید ہیں۔
تصویر: Reuters
الفتح اور حماس کا اتحاد
سن 2007ء میں الفتح اور حماس کے مابین علیحدگی کے بعد پہلی مرتبہ دونوں جماعتوں نے متحدہ حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے صدر محمود عباس پر امن مذاکرات کی بجائے حماس سے شراکت داری کو ترجیح دینے کا الزام عائد کیا۔
تصویر: DW/K. Shuttleworth
جنگ کے 50 دن
اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان صورت حال کشیدہ رہی۔ آٹھ جولائی کو اسرائیل نے غزہ پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ اسرائیل نے اس کا مقصد حماس کی طرف سے راکٹ فائر ہونے کے سلسلے کا خاتمہ کرنا بتایا۔ اس پچاس دن کی جنگ میں 2100 سے زائد فلسطینی ہلاک جبکہ تقریبا 70 اسرائیلی مارے گئے۔ غزہ میں کئی منزلہ تقریبا 20 ہزار رہائشی گھر تباہ کر دیے گئے۔
تصویر: Reuters
لیبیا دلدل میں
رواں برس لیبیا میں حریف گروپوں کی لڑائی نے ایک مرتبہ پھر لیبیا کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ طرابلس کے مد مقابل تبروک شہر میں ایک نئی پارلیمان کا وجود سامنے آیا۔ تب سے دونوں پارلیمانوں میں سیاسی خود مختاری کی جنگ جاری ہے۔ تاہم طرابلس کی پرانی پارلیمان نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
تیونس میں اقتدار
تیونس میں ہونے والے پارلیمانی انتخابت میں سیکولر قوتیں مذہبی جماعتوں کو شکست دینے میں کامیاب رہی۔ سیکولر جماعتوں کے اتحاد نے 217 میں سے 85 سیٹیں حاصل کیں جبکہ مذہبی جماعت النہدہ کو 69 نشستیں ملیں۔ سیکولر اتحاد نے ان انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/Zoubeir Souissi
اپنی بقاء کی جنگ
موت اور تباہی کے خوف سے نقل مکانی کرنے والے شامی مہاجرین اپنی زندگی کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اب یہ مہاجرین موسم سرما ایسے ایک نئے امتحان کے سامنے کھڑے ہیں۔ شام کے تیس لاکھ مہاجرین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
11 تصاویر1 | 11
فلسطینیوں کا کیا کہنا ہے؟
فلسطینی اتھارٹی نے آسی سی سی کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عدالت سے تعاون کرنے کو تیار ہے۔ فلسطینی دفتر خارجہ سے وابستہ ایک سینیئر اہل کار عمر اعواد اللہ کا کہنا تھا، ''ہم نے اپنا جواب آئی سی سی کو بھیج دیا ہے۔ فلسطینی متاثرین کو انصاف دلوانے اور اسرائیل کو اس کے جرائم کے لیے جوابدہ بنانے کے مقصد سے عدالت کے ایک رکن ریاست کی حیثیت سے فلسطین کی جانب سے تفتیش میں مکمل تعاون کیا جائے گا۔''
فلسطین نے سن 2015 میں بین الاقوامی عدالت میں شمولیت اختیار کی تھی اور تبھی سے جنگی جرائم کے کیسز کی تفتیش کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
اشتہار
امن مساعی کا کیا ہوا؟
اسرائیل نے سن 1967 کی جنگ کے بعد مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ جیسے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی انہیں علاقوں پر اپنی مستقبل کی آزاد ریاست چاہتے ہیں۔ 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے فوج واپس بلا لی تھی تاہم جب حماس نے اس علاقے میں
اقتدار حاصل کیا تو اس کی ناکہ بندی کر دی تھی۔
عالمی برادری ایسے تمام علاقوں کو مقبوضہ علاقہ مانتی ہے جس کا فیصلہ امن مذاکرات کے تحت ہونا ہے۔ لیکن اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا علاقہ مانتا ہے اور اسے مستقبل کا اپنا دارالحکومت تصور کرتا ہے۔ اس معاملے میں امن مذاکرات گزشتہ تقریباً دس برسوں سے تعطل کا شکار ہیں۔